Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بیٹے کا اغوا، تاج جویو کا ایوارڈ لینے سے انکار

تاج جویو کے نام کی منظوری سندھ حکومت کی جانب سے دی گئی تھی (فائل فوٹو: پی آئی ڈی)
صدر پاکستان عارف علوی نے 14 اگست کو 184 شخصیات کو اعلٰی سویلین اعزازات دینے کا اعلان کیا، انہی میں معروف سندھی ادیب تاج جویو بھی شامل ہیں جنہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی دینے کا اعلان کیا گیا تاہم انہوں نے یہ اعزاز قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے تاج جویو کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے سارنگ جویو کو 11 اگست کو اختر کالونی میں واقع ان کے گھر میں زبردستی گھس کر اغوا کیا گیا اور وہ ان کی رہائی کے لیے سراپا احتجاج ہیں، ایسی صورت میں وہ کیسے کسی حکومتی اعزاز کو وصول کر سکتے ہیں۔
صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی کے لیے تاج جویو کے نام کا انتخاب اور منظوری سندھ حکومت کی جانب سے دی گئی تھی۔ تاج جویو نے بتایا کہ صوبائی وزارت ثقافت کے عہدیداران نے انہیں اس حوالے سے آگاہ کردیا تھا، تب انہوں نے جواباً کچھ نہیں کہا تھا مگر پھر 11 اگست کو یہ واقعہ پیش آیا جس کے بعد انہوں نے اعزاز لینے سے انکار کیا۔

 

 ان کا کہنا تھا کہ وہ فی الحال کراچی میں ہیں جہاں وہ اپنے بیٹے کی رہائی کے لیے کوشاں ہیں، ہو سکتا ہے کہ حیدرآباد میں ان کے گھر پر کوئی سرکاری مراسلہ موصول ہوا ہو، وہ اس سے لاعلم ہیں۔ تاہم میڈیا پر سرکاری اعزازات ملنے والوں کی فہرست جاری ہوتے ہی انہوں نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ ’میں اس اعزاز کو کیسے قبول کر لوں۔‘
تاج جویو ترقی پسند شاعر اور ادیب ہیں ساتھ ہی وہ سیاسی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، وہ اپنا تعارف جی ایم سید کے پیروکار اور شاگرد کے طور پر کرواتے ہیں۔
ان کے بیٹے سارنگ جویو کراچی کی نجی یونیورسٹی میں بطور ریسرچ ایسوسی ایٹ خدمات انجام دے رہے تھے اور اپنے والد کی طرح وہ بھی سندھ کی عوامی سیاست میں خاصے سرگرم ہیں۔
حالیہ دنوں میں کراچی پریس کے سامنے سندھی لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے احتجاجی کیمپ لگایا گیا ہے۔ سارنگ جویو اس احتجاج میں بھی شریک رہے۔
سندھ سے لاپتا ہونے والے افراد کی بازیابی کے لیے وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ، سندھ سبھا اور سندھ سجاگی فورم کی جانب سے کئی ماہ سے کراچی پریس کلب کے باہر احتجاج جاری ہے جس میں گمشدہ افراد کے لواحقین کے ساتھ سارنگ جویو، ان کی اہلیہ سوہنی جویو اور والد تاج جویو بھی مسلسل شرکت کرتے رہے ہیں۔

آئی جی سندھ کے ترجمان نے کہا کہ پولیس فی الحال کوئی بیان نہیں دینا چاہتی (فوٹو: سوہنی جویو)

دوسری جانب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر سینیٹ میں انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین مصطفیٰ نواز کھوکر نے سارنگ جویو کی ’جبری گمشدگی‘ کے معاملے کو 17 اگست کو ہونے والے کمیٹی کے اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کرلیا ہے۔
انسپکٹر جنرل سندھ اور مسنگ پرسنز کمیشن کے سربراہ کو سینیٹ قائمہ کمیٹی کے روبرو پیش ہونے کا کہا گیا ہے تاکہ وہ سارنگ جویو کی گمشدگی اور ان کی بازیابی کے لیے کی جانے والی کوششوں سے کمیٹی کو آگاہ کریں۔
 جب آئی جی سندھ مشتاق مہر کے ترجمان سہیل جوکھیو سے اس معاملے پر سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ پولیس اس معاملے پر فی الحال کوئی بیان نہیں دینا چاہتی، جو بھی کارگزاری ہو گی اس سے آئی جی سندھ سینیٹ کمیٹی کو آگاہ کردیں گے۔
واضح رہے کہ سارنگ جویو کے اغوا کی پولیس رپورٹ تھانہ محمود آباد میں درج ہے تاہم تاج جویو کا کہنا ہے کہ پولیس نے اس معاملے پر ابھی تک تفتیشی افسر متعین نہیں کیا۔

شیئر: