Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تحریک انصاف کا دو سالہ دور، پانچواں آئی جی پنجاب تبدیل

شعیب دستگیر بطور آئی جی پنجاب اپنی تعیناتی کا ایک سال پورا نہ کر سکے (فوٹو: ٹوئٹر)
پنجاب حکومت نے آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کو عہدے سے ہٹا دیا ہے۔
شعیب دستگیر کو عہدے سے ہٹانے کے حوالے سے ابھی تک سرکاری طور پر کچھ نہیں بتایا گیا۔
شعیب دستگیر پنجاب کے پانچویں آئی جی ہیں جنہیں گذشتہ دو سال کے دوران تبدیل کیا گیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے آئی جی پنجاب کو ہٹانے کا نوٹی فیکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔

 

نوٹی فیکیشن کے مطابق شعیب دستگیر کو سیکرٹری نارکوٹکس کنٹرول ڈویژن تعینات کر دیا گیا ہے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گِل کے مطابق انعام غنی کو پنجاب پولیس کا نیا انسپکٹر جنرل تعینات کر دیا گیا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے انعام غنی کی بطور آئی جی پنجاب پولیس تعیناتی کا نوٹی فیکیشن جاری کر دیا ہے۔ خیال رہے تحریک انصاف کے  دو سالہ دور میں پانچ آئی جی تبدیل کر دیے گئے۔
جب 2018 میں تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو عارف نواز کو تبدیل کر کے محمد طاہر کو آئی جی پنجاب پولیس تعینات کیا گیا تھا۔ محمد طاہر کو پولیس میں اصلاحات کے لیے تعینات کیا گیا تھا تاہم محمد طاہر کی بطور آئی جی پنجاب تعیناتی کے ایک ماہ بعد ہی انھیں تبدیل کر دیا گیا۔
محمد طاہر کے بعد امجد جاوید سلیمی کو آئی جی پنجاب تعینات کیا گیا۔ امجد جاوید سلیمی کو چھ ماہ بعد تبدیل کر کے عارف نواز کو 2019 میں دوبارہ تعینات کر دیا گیا۔
عارف نواز کی بطور آئی جی پنجاب تعیناتی کے سات ماہ بعد انھیں تبدیل کر کے شعیب دستگیر کو آئی جی پنجاب تعینات کیا گیا۔ شعیب دستگیر بطور آئی جی پنجاب اپنی تعیناتی کا ایک سال پورا نہ کر سکے۔

ایڈیشنل آئی جی کا نئے آئی جی کے ماتحت کام سے انکار:

دوسری جانب ایڈشنل آئی جی پنجاب طارق مسعود نے نئے آئی جی پنجاب کے ماتحت کام کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
ڈی آئی جی ہیڈکوارٹرز کو بھیجے گئے خط میں طارق مسعود کا کہنا تھا کہ موجودہ آئی جی ان سے جونئیر ہیں اس لیے وہ ان کے انڈر کام نہیں کر سکتے۔ انہوں نے پنجاب حکومت سے درخواست کی کہ ان کا تبادلہ کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ تبادلے کا فیصلہ ہونے تک میری چھٹی کی درخواست نئے آئی جی کو دے دی جائے۔
دو سال میں پانچویں آئی جی کی تبدیلی کے بعد تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی پر ایک بار پھر سوالات اٹھائے جانے لگے ہیں۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار عارف نظامی آئی جی پنجاب پولیس کی تبدیلی کو تحریک انصاف حکومت کی ناتجربہ کاری قرار دے رہے ہیں۔

عارف نظامی کے مطابق  آئی جی کو تبدیل کرکے  پیغام دیا گیا ہے کہ ’جو ہماری پارٹی کا وفادار ہوگا وہی ساتھ چلے گا‘ (فوٹو: ٹوئٹر)

اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے عارف نظامی کا کہنا تھا کہ ’دعوی کیا جاتا تھا کہ ماضی میں پنجاب پولیس کو مسلم لیگ ن اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی رہی ہے لیکن اب جو شخص ان کا کہنا نہیں مانتا اسے فارغ کردیتے ہیں۔ یہ اس حکومت کی بدقسمتی ہے کہ دو سال گزرنے کے باوجود ٹیم بنانے میں ناکام رہے ہیں۔
عارف نظامی کا مزید کہنا تھا کہ’جس سی سی پی او کی وجہ سے آئی جی پنجاب کو تبدیل کیا گیا ہے وہ ایک سیاسی آدمی ہیں اور سی سی پی او کے نامناسب الفاظ پر آئی جی پنجاب کو تبدیل کرنا ایک نامناسب عمل ہے اور میرا خیال ہے کہ یہ وزیر اعلٰی پنجاب عثمان بزدار سے اوپر کا معاملہ ہے۔
انہوں نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی آزاد آدمی تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ کام نہیں کر سکتا۔
حکومت کو خدشہ ہے کہ اگر آئندہ آنے والے عرصے میں اپوزیشن نے احتجاجی سیاست شروع کی یا سڑکوں پر نکل آئی اور حکومت کو وسیع پیمانے میں گرفتاریاں مطلوب ہوں تو ایسے میں شعیب دستگیر جیسے افسر نہیں چل سکتے۔
عارف نظامی کے مطابق  آئی جی پنجاب کو تبدیل کرنے سے یہ واضح پیغام دیا گیا ہے کہ ’جو ہماری پارٹی کا وفادار ہوگا وہی ہمارے ساتھ چلے گا جو نہیں ہوگا وہ نہیں چلے گا۔‘ انہوں نے کہا کہ اس میں افسوسناک بات یہ ہے کہ جو حکومت اصولوں کا درس دیتی تھی اسی نے اس طرح کا اقدام کیا اور اس سے پہلے بھی پنجاب میں آئی جی تبدیل ہونی کی یہی وجہ بنی ہے۔
سابق آئی جی موٹروے پولیس اور ایسوسی ایشن آف ریٹائرڈ انسپکٹرز جنرل آف پولیس کے صدر افتخار رشید نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'دو سال میں پانچ آئی جیز کو تبدیل کرنا بد انتظامی کی اعلٰی مثال ہے۔

سابق آئی جی افتخار رشید کے مطابق دو سال میں پانچ آئی جیز کو تبدیل کرنا بد انتظامی کی اعلٰی مثال ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

انہوں نے کہا کہ آئی جی کسی بھی پولیس کا کمانڈر ہوتا ہے اور  سوا دو لاکھ فورس کے کمانڈر کو آپ اس طرح تبدیل کر دیں تو فورس پر انتہائی برا اثر پڑتا ہے۔
کسی بھی صوبے میں آئی جی کو اپنی فورس اور مسائل کو سمجھنے کے لیے کم از کم چھ سے سات ماہ لگتے ہیں پھر وہ کام کر سکتا ہے۔ اس طرح ہر چھ ماہ بعد آئی جی تبدیل کرنے سے پولیس انتظامیہ تباہ ہو جائے گی۔
سابق آئی جی افتخار رشید نے کہا کہ 'حکومت نے جس طرح آئی جی کو تبدیل کیا ہے وہ انتہائی غلط اقدام ہے، یہ فیصلہ کس بنیاد پر کیا ہے اس کی کیا وجوہات ہیں یہ تمام حقائق دیکھنے کے بعد ہم بطور تنظیم کوئی بیان جاری کر سکتے ہیں لیکن یہ ثابت ہو چکا ہے کہ جو دعوے عمران خان نے پولیس اصلاحات کے حوالے سے کیے تھے وہ سب غلط ثابت ہو گئے ہیں۔

شیئر:

متعلقہ خبریں