Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کنگ عبدالعزیز لائبریری میں سعودی عرب کے ماضی پر نایاب کتابیں

دنیا بھر کے اسکالرز کو مملکت کے بارے میں مزید جاننے میں مدد ملے گی۔(فوٹوواس)
کسی ملک میں موجود لائبریریاں اور اس میں موجود کتابیں قوموں کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
قوموں کے خوشحال مستقبل کی مضبوط  بنیاد  رکھنے کے لیے ماضی کو پرکھنا اور اس سے سبق سیکھنا بہت ضروری ہے۔
عرب نیوز کے مطابق سعودی عرب اپنے شاندار  ماضی کی  یادیں محفوظ رکھنے کی راہ پر گامزن ہے۔ اس کے لیے ثقافتی ورثہ کے مراکز اور ماضی کے متعلق نایاب مخطوط اور کتابوں کے ذخیرے کے لیے لائبریریوں کی طرف توجہ دی جا رہی ہے۔

خطے کی تاریخ کے بارے میں مسلم سیاحوں نے بھی بڑے پیمانے پر تحریر کیا(فوٹو عرب نیوز)

کنگ عبدالعزیز پبلک لائبریری ریاض میں اس سلسلے کی نایاب کتابوں کا ذخیرہ موجود ہے۔ ان کتابوں میں جزیرہ نما عرب کی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
جس میں اس خطے  میں آثار قدیمہ کے حوالے سے مختلف  تہذیبوں  اور زبانوں کے بارے میں  معلومات شامل ہیں۔
کنگ عبد العزیز یونیورسٹی میں جدید تاریخ اور بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر عبد الرحمن العریبی نے بتایا ہے "ان میں سے بہت سی کتابیں مختلف ممالک  کے  سیاحوں نے انگریزی ، فرانسیسی اور جرمن زبان میں لکھی ہیں۔ ان میں تحقیق ا کے ساتھ  دریافت کئے گئے بہت سے حقائق موجود ہیں۔

تحریروں میں تیما ، تبوک اور مدائن صالح علاقوں کی تہذیبیں درج ہیں۔(فوٹو سوشل میڈیا)

امریکہ کی مڈل ٹینسی اسٹیٹ یونیورسٹی میں مشرق وسطی اور اسلامی تاریخ کے پروفیسر شاون فولے نے عرب نیوز کو بتایا  ہے کہ  یہاں پر موجود  نایاب کتب سے دنیا  بھر کے اسکالرز کو مملکت کے بارے میں مزید جاننے میں مدد ملے گی۔
پروفیسر نے کہا کہ مجھ جیسے اسکالرز جو سعودی عرب، مشرق وسطی اور عالمی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہیں وہ اس کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں رہنے والے ایک طویلعرصے سے سعودی عرب کی تاریخ اور اس خطے کی خاصیت کے بارے میں جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

سیاحت کے لیے چارلس ایم ڈوٹی نے1875 میں جزیرہ نماعرب کا سفر کیا۔(فوٹو عرب نیوز)

مملکت کے شمال مغربی علاقے  یورپی سیاحوں اور دیگر غیر ملکیوں کی رہنمائی، تحقیق اور ان کی علم کی تشنگی کے لئے ہمیشہ ایک منزل رہے ہیں۔
اس خطے کی تاریخ اور جغرافیہ کے بارے میں مسلم سیاحوں نے بھی بڑے پیمانے پر تحریری کام  کیا  لیکن بدقسمتی سے   ان کے کارناموں یا سفر ناموں کا کبھی بھی لاطینی زبان میں ترجمہ نہیں کیا گیا جو اس وقت یورپ میں رائج زبان تھی۔
اس کے باعث ایک علمی خلاء بھی پیدا ہوا جس نے مغربی باشندوں کو دنیا کے اس حصے کی تلاش کے لئے ترغیب دی۔

یہاں سے متعلق زیادہ تر کتابیں مغربی سیاحوں نے ہی لکھی ہیں۔(فوٹو عرب نیوز)

جزیرہ نما عرب کی سیاحت کے لیے ایک سیاح چارلس ایم ڈوٹی  1875 اور 1877 میں یہاں کا سفر کیا۔ انہوں نے اپنی کتاب "ٹریولز ان عربی صحرا" میں مدائن صالح کے آثار قدیمہ  اور اس کی حیثیت کے بارے میں تحریر کیا ہے۔
اسیعرصہ میں فرانسیسی سیاح چارلس ہیوبرنے بھی  اپنے ایک ساتھی آثار قدیمہ کے ماہر ایم  ایوٹنگ کے ہمراہ اس علاقے کا خصوصی سفر کیا۔
انہوں نے1891 میں "جرنل آف دی سفر آف عربیہ" کے عنوان سے ایک کتاب میں اس کی تفصیل درج کی ہے۔

مدائن صالح کے آثار قدیمہ  اور اس کی حیثیت کے بارے میں تحریریں ہیں(فوٹو سوشل میڈیا)

یہاں سے متعلق زیادہ تر کتابیں مغربی سیاحوں نے ہی لکھی ہیں اوران کے سفر کی معلوماتی تحریریں زیادہ تر ان خطوں کی بابت ہیں جو علاقے آج کل سعودی عرب کا حصہ ہیں۔
سیاحت کے  مطالعاتی سفر میں1907 اور 1914 میں جوسن اور سیوینیک کو ڈوٹی ، ہیوبر اور ایوٹنگ کا  شروع کیا گیا کام مکمل کرنے کے لیے اس علاقے میں بھیجا گیا تھا۔
ان دونو ں کے تفصیلی مطالعاتی  دورے کی  روداد فرانسیسی زبان میں تین جلدوں "مشن آرکیولوجک این عربی" میں لکھی گئی۔
ان کی تحریروں میں تیما ، تبوک اور مدائن صالح علاقوں کی تہذیبیں درج ہیں۔
ڈاکٹر عبد الرحمن العریبی نے عرب نیوز کو بتایا کہ ان کی کتابیں سرکاری طور پر رجسٹرڈ تھیں  اور نسل در نسل محفوظ ہیں۔
مغربی سیاحوں کے سفر کا رحجان انفرادی ، مذہبی ، سیاسی ، سائنسی یا تاریخی مقاصد کے لئے 15 ویں صدی کے آخر اور 20 ویں صدی کے اوائل میں رہا۔
مملکت اوراس کی تاریخ پر نئے علمی کاموں پر توجہ حالیہ برسوں میں دیکھنے میں زیادہ  آئی ہے۔
شاون فولے نے بتایا  ہے کہ یہ کتابیں بلاشبہ اسکالرز کو دنیا کی تاریخ میں مشرق وسطی، سعودی عرب اور اس کے اہم مقامات کو بہتر طور پر سمجھنے میں مددگار ثابت ہوں گی۔
  • خود کو اپ ڈیٹ رکھیں، واٹس ایپ گروپ جوائن کریں

شیئر: