Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سرِعام پھانسی کا مطالبہ کیا غیر آئینی؟

لاہور موٹر وے ریپ کیس کے بعد پاکستان میں خواتین نے مجرموں کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں ان دنوں یہ بحث ایک بار پھر زوروں پر ہے کہ ریپ کے مجرموں کو موت کی سزا سرعام پھانسی کی صورت میں دی جائے یا ایسا نہ کیا جائے۔
وزیر اعظم عمران خان خود ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ بات کہہ چکے ہیں کہ وہ سر عام پھانسی کی سزا کے حامی ہیں۔ ایسے میں حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ ن نے سینیٹ میں سرِعام پھانسی کی سزا کا بل قانونی سازی کے لیے جمع کروایا ہے۔
یہ بل ن لیگ کے سینیٹر جاوید عباسی نے جمع کروایا ہے۔ اس بل کو بچوں کو جرائم سے تحفظ کے ترمیمی بل کا نام دیا گیا ہے اور اس میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والوں کو سرعام پھانسی دینے کی تجویز شامل ہے۔

 

اس بل میں یہ بھی تجویز دی گئی ہے بچوں سے جنسی زیادتی کے مقدمات کا ٹرائل ہائی کورٹ کرے اور دو مہینے کے اندر ان مقدمات کا فیصلہ بھی کیا جائے۔
اس سے پہلے بھی رواں سال فروری میں حکمران جماعت تحریک انصاف کے وفاقی وزیر علی محمد نے سرعام پھانسی کے مطالبے کی قرار داد قومی اسمبلی میں پیش کی تھی جسے اسمبلی نے منظور کر لیا تھا۔

کیا سر عام پھانسی دی جا سکتی ہے؟

جب بھی پاکستان میں کوئی سنگین واقعہ رونما ہوتا ہے تو یہ بحث اٹھا لیتی ہے اور یہ سلسلہ ختم نہیں ہوتا۔ پاکستان میں عدالتی انصاف کی شفافیت کے لیے کام کرنے والی تنظیم جسٹس پراجیکٹ کی سربراہ ایڈووکیٹ سارہ بلال کہتی ہیں کہ اس بحث کو سرے سے ختم ہو جانا چاہیے۔
’آپ مجھ سے نہ پوچھیں آپ اپنے آئین کا آرٹیکل 14 خود پڑھ لیں، اس سے آپ کو واضح ہو جائے گا کہ سر عام پھانسی کا مطالبہ کرنا یا اس کے لیے کوئی کوشش کرنا بے سود ہے کیونکہ یہ غیر آئینی ہے۔‘

موٹر وے ریپ کیس کے ایک ملزم شفقت علی کو عدالت میں لایا جا رہا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

سارہ بلال نے آرٹیکل 14 کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا ’یہ آرٹیکل بنیادی انسانی حقوق سے متعلق ہے اور انسانی وقار کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے اسلام میں لاش کی بے حرمتی کی ممانعت ہے، آپ کا دشمن خواہ کتنا ہی جابر ہو اگر وہ ایک دفعہ سزا پا چکا تو سزا ختم، آپ اس کی لاش پر غصہ نہیں نکال سکتے۔ تو میں سمجھتی ہوں کہ یہ آرٹیکل اس بات کا ضامن ہے کہ آپ ایسی کوئی قانون سازی نہیں کر سکتے جو اس کے خلاف ہو۔‘
پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین اعظم نزیر تارڑ کی رائے بھی اس سے مختلف نہیں وہ کہتے ہیں کہ ’یہ معاملہ سپریم کورٹ کب کا ختم کر چکی ہیں۔ آرٹیکل 14 کی تشریح  پر دس سے زائد فیصلے آ چکے ہیں۔ اور سب سے پہلے سنہ 1994 میں فل بینچ  نے یہ فیصلہ سنا دیا تھا کہ سر عام پھانسی کی سزا نہ صرف آئین سے متصادم ہے بلکہ کوئی آئینی ترمیم کا بھی سوچے گا تو اس کو پہلے سپریم کورٹ کے ان فیصلوں کو ختم کروانا ہو گا۔‘

مجرموں کو سرِعام پھانسی دینے کے لیے قانون میں ترمیم کا بل مسلم لیگ ن نے پیش کیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

خیال رہے کہ اس موضوع پر خود حکومتی وزیر قانون فروغ نسیم یہ بیان دے چکے ہیں کہ وہ ایسے کسی قانون یا قرارداد کی حمایت نہیں کر سکتے جب تک اس معاملے پر سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے موجود ہیں۔
سارہ بلال کہتی ہیں کہ اس سزا کے بین الاقوامی اثرات تب دیکھیں گے جب پہلے اپنے ملک کے آئین اور قانون کے اثرات سے گزر لیں گے۔ ’میں تو اب چاہتی ہوں کہ اس بحث پر وقت ضائع کرنے کے بجائے یہ غور کریں کہ نظام میں خرابیاں کہاں پر ہیں۔ یہ بحث محض سیاسی اور عوامی جذبات کے پیش نظر شروع کی جاتی ہے۔ حالانکہ ایسے موقع پر تو عوام کو درست راہ نمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔‘

شیئر:

متعلقہ خبریں