Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چین کی مساجد مسمار کرنے کی تردید

اقوام متحدہ کے مطابق کیمپوں میں دس لاکھ مسلمانوں سے کام کروایا جا رہا ہے (فوٹو: روئٹرز)
چین کی وزارت خارجہ نے آسٹریلین تھنک ٹینک کے اس دعوے کی تردید کی ہے جس کے تحت کہا گیا تھا کہ سنکیانگ ریجن میں ہزاروں مساجد کو مسمار کیا گیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق تھنک ٹینک نے کہا تھا کہ سنکیانگ میں 24 ہزار مساجد ہیں۔
آسٹریلین سٹریٹیجک پالیسی انسٹیٹیوٹ (اے ایس پی آئی) نے جمعرات کو ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ 2017 سے حکومتی پالیسی کے تحت سنکیانگ میں 16 ہزار مساجد کو مسمار کیا گیا یا انہیں نقصان پہنچایا گیا۔

 

یہ اندازہ سٹیلائٹ سے لی گئی تصاویر کے ذریعے اور 2017 سے قبل نو سو مذہبی مقامات کی سیمپلز سے لگایا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ’چینی حکومت سنکیانگ کی اویغور علاقے کے ثقافتی ورثے کی شناخت ختم کرنے کے لیے جان بوجھ کر اور منظم طریقے سے مہم چلا رہی ہے۔‘
’اویغوروں کی سماجی اور ثقافتی زندگیوں کو تبدیل کرنے یا ان کی زبان، موسیقی اور حتی کہ ان کے گھروں اور کھانے پینے کو بدلنے کے علاوہ چینی حکومت کی پالیسیاں ان کے ثقافتی ورثے کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔‘
اس رپورٹ پر ردعمل دیتے ہوئے چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان وینگ وینبن نے ایک میڈیا بریفنگ میں کہا کہ ’یہ ہتک آمیز افواہوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اے ایس پی آئی نے چین کے خلاف جھوٹ پھیلانے کے لیے بیرونی امداد حاصل کی ہے۔‘

چین نے اویغور مسلمانوں کے ساتھ برے سلوک کی تردید کی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ ’ہم مساجد کی تعداد کو دیکھ رہے ہیں۔ سنیکیانگ میں 24 ہزار مساجد ہیں جو امریکہ کے مقابلے میں دس گنا زیادہ ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ 530 مسلمانوں کے لیے ایک مسجد موجود ہے۔‘
اویغور مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی وجہ سے چین کو تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ کیمپوں میں رکھے گئے دس لاکھ مسلمانوں سے کام کروایا جا رہا ہے۔
چین نے اویغور مسلمانوں کے ساتھ برے سلوک کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ یہ کیمپس ’ووکیشنل ٹریننگ سنٹرز‘ ہیں جو انتہا پسندی پر قابو پانے کے لیے بنائے گئے ہیں۔

شیئر: