Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’خواتین اساتذہ بننا چھوڑ دیں یا مائیں؟‘

سوشل میڈیا صارفین نے تجویز دی ہے کہ تعلیمی اداروں میں ڈے کیئر سینٹرز قائم کیے جائیں (فوٹو:ٹوئٹر)
سوشل میڈیا پر اس وقت ایک میانوالی کی ایک خاتون ٹیچر کی معطلی کا نوٹی فکیشن زیر بحث ہے جس کے مطابق ڈسٹرکٹ ایجوکیشن میانوالی نے عشرت ستار نامی خاتون ٹیچر کو صرف اس لیے معطل کر دیا کیونکہ وہ مبینہ طور پر اپنے بچے کے ساتھ کھیل رہی تھیں۔
سوشل میڈیا صارفین خاتون پولیس افسران کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے تنقید کر رہے ہیں کہ جب ہائی رینک کی افسران اپنے بچوں کے ساتھ ڈیوٹی کرتی نظر آتی ہیں تو انہیں بہت سراہا جاتا ہے لیکن اگر ایک سکول ٹیچر ایسا کرے تو اسے ’جرم‘ سمجھا جاتا ہے۔

ٹوئٹر صارفین میں سے کچھ پاکستان کی سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی اپنے بچوں کے ہمراہ تصویر شیئر کرتے دکھائی دیے تو کچھ نے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جسینڈا آرڈرن کی مثال دی۔

ثنا شبیر نامی صارف نے لکھا کہ ’سمجھ میں نہیں آتا خواتین استاد بننا چھوڑ دیں یا مائیں بننا ہی چھوڑ دیں۔‘

سعد خان نامی صارف نے لکھا کہ 'خاتون ٹیچر کو وارننگ دیے بغیر معطل کر دینا ناانصافی ہے۔ اعلیٰ حکام کو خاتون اساتذہ کی مشکلات کو سمجھنا چاہیے۔'

ایک اور صارف محمد خرم نے خاتون افسران کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا ’دوہرا معیار۔‘

حنا نقوی نامی ٹوئٹر صارف نے تبصرہ کیا کہ ’ماں ماں ہوتی ہے۔ رینک اہمیت نہیں رکھتا۔ تمام ماؤں کی ایک جیسی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔‘

حنا نقوی نامی صارف نے اپنی ایک اور ٹویٹ میں سوال اٹھایا کہ ’کیا خاتون ٹیچر کو اپنے بچوں کے ساتھ کھیلنے کے جرم میں معطل کرنا انصاف ہے؟‘

وائس آف ٹیچرز کے نام سے ٹوئٹر ہینڈل نے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جسینڈا آرڈرن کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا 'نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جسینڈا آرڈرن اپنے شیرخوار بچے کے ساتھ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہیں۔'
صارفین نے وزیر تعلیم پنجاب مراد راس سے معاملے کا نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ تجویز دی کہ تعلیمی اداروں میں ڈے کیئر سینٹرز قائم کیے جائیں۔

وسیم قریشی نامی ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ ’اس مسئلے کا صرف یہی حل ہے کہ خواتین اساتذہ کی سہولت کے لیے سکولوں میں ڈے کیئر سینٹرز قائم کیے جائیں۔‘
باخبر رہیں، اردو نیوز کو ٹوئٹر پر فالو کریں

شیئر: