Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نوبل انعام یافتہ خواتین کی تعداد کم کیوں؟

میری کیوری نوبل انعام حاصل کرنے والی پہلی خاتون تھیں۔ فوٹو: نوبل
میری کیوری، مدر ٹریسا اور ملالہ یوسفزئی کا شمار نوبل انعام حاصل کرنے والی صرف پانچ فیصد خواتین میں ہوتا ہے۔ ان خواتین کی شرح نہ صرف انعام یافتہ مردوں کے مقابلے میں کم ہے بلکہ جو ادارے نوبل ایوارڈ کے لیے افراد کا چناؤ کرتے ہیں، ان میں بھی خواتین کی نمائندگی متناسب نہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق میڈیسن، فزکس، کیمسٹری، لٹریچر اور معاشیات کے شعبوں میں نمایاں خدمات پر نوبل انعام دینے کے لیے افراد کا چناؤ سویڈن میں موجود ایک کمیٹی کرتی ہے۔ جبکہ امن نوبل انعام دینے والی کمیٹی ناروے میں موجود ہے۔
سویڈن اور ناروے دونوں ایسے یورپی ممالک ہیں جو صنفی مساوات قائم رکھنے پر فخر محسوس کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود دونوں نوبل کمیٹیوں میں مرد اراکین کے مقابلے میں خواتین کا تناسب ایک چوتھائی ہے۔
جبکہ امن نوبل کمیٹی کے علاوہ دیگر تمام کمیٹیوں کی سربراہی مرد اراکین کر رہے ہیں۔
ناروے میں نوبل امن کمیٹی کے سیکرٹری نے کہا ہے کہ نوبل ایوارڈ کی انتخابی کمیٹیوں میں خواتین کا تناسب بڑھنے سے انعام یافتہ خواتین کی شرح میں بھی اضافہ ممکن ہے۔
2001 سے اب تک 24 خواتین کو نوبل ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے جبکہ اس سے قبل 20 سال کے عرصے کے دوران صرف 11 خواتین کو یہ ایوارڈ دیا گیا۔
کمیٹی کے سیکرٹری کا کہنا ہے کہ یہ سوچنا غلط نہیں کہ انتخابی کمیٹیوں میں خواتین کی تعداد میں اضافے کے ساتھ انعام یافتہ خواتین کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
صنفی مساوات میں بہتری کے باوجود شعبہ معاشیات میں ایوارڈ کے لیے انتخابی کمیٹی کے گیارہ اراکین میں سے صرف 2 خواتین ہیں۔
جبکہ کیمسٹری کے لیے ایوارڈ کی کمیٹی کے دس اراکین میں سے تین، میڈیسن کی 18 میں سے چار اور فزکس کی کمیٹی میں سات ممبران میں سے صرف ایک خاتون ہیں۔

ملالہ یوسف زئی کو 2014 میں امن نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

فزکس کی انتخابی کمیٹی کی واحد خاتون رکن ایوا آلسن نے اے ایف پی کو کمیٹی میں خواتین کی نمائندگی کم ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ فزکس کے شعبے میں ویسے بھی خواتین کا تناسب مردوں سے کم ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسی مثالی شخصیات کا ہونا انتہائی اہم ہے جن سے متاثر ہو کر خواتین طالب علم  فزکس کے شعبے کا انتخاب کریں۔
باخبر رہیں، اردو نیوز کو ٹوئٹر پر فالو کریں

شیئر: