Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مہنگائی میں کمی لانے کا اعلان، مگر کیسے؟

 ‏‏ستمبر 2020 میں مہنگائی میں 1.54 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر ملک میں مہنگائی پر قابو پانے کے حوالے سے اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ 
انہوں نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں کمی لانے کے لیے تمام ریاستی وسائل بروئے کار لاتے ہوئے جلد اقدامات اٹھانے کا کہا۔
وزیراعظم عمران خان نے جمعے کے روز ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ ’پیر سے شروع ہونے والے آئندہ ہفتے ہماری حکومت اشیائے خور و نوش سستی کرنے کے لیے تمام ریاستی وسائل بروئے کار لائے گی۔‘
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت پہلے ہی مہنگائی کےعوامل کا جائزہ لیتے ہوئے تعین کر رہی ہیے کہ آیا رسد میں واقعی کمی ہے، یا پھر مافیا کی جانب سے ذخیرہ اندوزی و سمگلنگ مہنگائی کا سبب ہیں۔
انھوں نے اپنی ٹویٹ میں مزید کہا کہ اس بات کا بھی جائزہ لیا جائے گا کہ آیا ’دالوں اور پام آئل وغیرہ کی عالمی منڈی میں بڑھتی ہوئی قیمتیں مہنگائی میں اضافے کی وجہ ہیں۔ بہرحال آئندہ ہفتے سے ہم اپنی حکمت عملی نافذ کریں گے اور اداروں سمیت تمام ریاستی وسائل بروئے کار لاتے ہوئے اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں کمی کے لیے اقدامات کا آغاز کریں گے۔‘
معاشی ماہرین کی رائے میں ملک میں موجودہ مہنگائی کی وجہ طلب و رسد میں عدم توازن نہیں بلکہ گورننس کا کمزور نظام ہے۔ 
معیشت کے ماہر ڈاکٹر ساجد امین کہتے ہیں کہ ’گندم کا ہدف پورا ہونے کے باوجود گندم باہر سے منگوانا پڑ رہی ہے۔ ٹماٹر مارکیٹ میں وافر مقدار میں موجود ہے لیکن مہنگا ہے۔ چینی برآمد نہیں ہو رہی لیکن قیمت سو روپے سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ کمزور انتظامی مشینری ہے جو عوامی مفاد کا تحفظ نہیں کر رہی۔‘ 

وزیراعظم نے اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

سابق مشیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’پچھلے پچاس برسوں میں رسد و طلب اور سپلائی کا نظام ٹھیک نہیں کیا گیا۔ اس کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔‘  
ڈاکٹر سلمان شاہ کا کہنا تھا کہ ’صارف کو جو چیز مہنگے داموں مل رہی ہے اگر اس کی قیمت  کا بڑا حصہ کسان کو جا رہا ہے تو پھر تو فائدہ ہے۔ اگر کسان کو مجموعی قیمت کا کچھ حصہ ہی مل رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ سپلائی کے نظام میں گڑبڑ ہے۔ اس کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر دنیا کے دیگر ممالک میں ایک چیز کی قیمت زیادہ ہوگی اور پاکستان میں اس کی قیمت کم ہوگی تو اس چیز کو باہر بھیج دیا جائے گا۔
سابق مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ’ہمارے اداروں کی کمزوری ہے کہ ان کو اشیائے خور و نوش کے ذخائر کا علم نہیں ہوتا۔ اس نظام کو جدید کرنے کی ضرورت ہے کہ اداروں کو معلوم ہو کہ کتنا سٹاک موجود ہے، کتنا آرہا ہے اور منڈی میں روزانہ کتنا جاتا ہے۔ اس نظام کو بہتر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سائنسی بنیادوں پر کام کیا جائے۔‘ 
ماہر معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق مہنگائی کی وجہ طلب و رسد یا سپلائی کے مراحل میں خرابی ہونا نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’مہنگائی پیداواری اور نقل و حمل کے اخراجات میں اضافے کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ تیل، گیس، بجلی اور کھاد کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے اشیائے خور و نوش کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔‘ 

معاشی ماہرین نے مہنگائی کی وجہ گورننس کے کمزور نظام کو قرار دیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ڈاکٹر فرخ سلیم نے کہا کہ ’وزیراعظم اس وقت سمجھا رہے ہیں کہ وہ ڈنڈے مار کر ذخیرہ اندوزوں سے مال باہر نکلوا لیں گے تو ایسا ممکن نہیں ہے۔ ڈنڈے سے آج تک کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا۔‘
انہوں نے کہا کہ حکومت کو مہنگائی کا سبب بننے والے اپنے اقدامات کو درست کرنا ہوگا اور اس کے لیے تیل، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں کمی لانا پڑے گی۔
’اگر حکومت ان اشیا کی قیمتوں میں کمی لانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس سے مہنگائی خود بخود نیچے آجائے گی۔‘ 
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایک ماہ میں ٹماٹر 40، سبزیاں 33.3، ‏چکن 18.3، پیاز 14.5، ‏آلو 6.18، انڈے 5.2 اور دال چنا کی قیمت میں 4.5 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
 جولائی سے ستمبر تک آلو 76 فیصد، ادرک 54 فیصد اور انڈے 36 فیصد مہنگے ہوئے۔ ‏شہروں میں آٹا 34.3 فیصد اور دیہاتوں میں 29.57 فیصد مہنگا ہوا ہے۔
 ‏‏ستمبر 2020 کے دوران مہنگائی میں 1.54 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ‏چینی کی قیمت میں بھی 22.5 فیصد اضافہ ہوا۔

شیئر: