Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا: کیا بریانی مسلمانوں کی ڈِش ہے؟

انڈیا میں کسی بھی مسئلے کو فرقہ وارانہ رنگ دینا سوشل میڈیا پر ایک مشغلہ بن گیا ہے (فوٹو: فیس بک)
انڈیا میں ان دنوں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بائیکاٹ کا موسم ہے۔ کم از کم سوشل میڈیا ٹرینڈز سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے۔
گذشتہ دنوں ایک اشتہار پر زیورات کی مشہور چین تنشق کے زیورات کے بائیکاٹ کا ٹرینڈ جاری تھا تو بدھ کے روز بائیکاٹ بریانی پر مباحثہ جاری ہے۔
انڈیا میں کسی بھی مسئلے کو فرقہ وارانہ رنگ دینا سوشل میڈیا پر ایک مشغلہ بن گیا ہے۔ تنشق نے سوشل میڈیا پر جاری مہم کے سبب اپنے اشتہار کو ہٹا لیا ہے جس پر دوسرے لوگوں نے اسے تنقید کا نشانہ بنایا اور آج اسی حوالے سے این ڈی ٹی وی اور فیک نیوز ٹرینڈ کر رہا ہے۔
دراصل اس میں ایک مسلم خاندان میں ہندو بہو کے لیے ہندو رسم و رواج کو دکھایا گیا تھا اور اسے 'بیوٹی آف ون نیس' کہا گیا تھا۔
بہرحال انڈیا میں بریانی کو بھی ہندو اور مسلمان کے خانے میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ در اصل انڈین صحافی سیمی پاشا نے تنشق کے بعد ٹویٹ کی کہ 'کھلا چیلنج ہے: کرسکتے ہو تو بریانی کا بائیکاٹ کرو!'
اس کے بعد کیا تھا انڈیا میں بریانی ٹرینڈ کرنے لگا۔ ان کی ٹویٹ کو تین ہزار سے زیادہ مرتبہ لائک کیا گیا۔ تقریباً ایک ہزار جوابات دیے گئے اور 450 ری ٹویٹس ہوئے لیکن بریانی سے متعلق اب تک 13 ہزار سے زیادہ ٹویٹس سامنے آ چکی ہیں۔
وکرانت کمار نامی صارف نے لکھا کہ 'بریانی کے بارے میں خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ مسلم پکوان ہے جسے مغل اپنے ساتھ ترکی اور ایران سے لائے۔ افسوس کہ وہاں کوئی چاول اگانے والا علاقہ ہی نہیں ہے۔ یہ عقل اور سمجھ بوجھ یہاں کی کمی ہے۔ بریانی انڈین پکوان ہے جس میں مغل فوج نے کچھ تبدیلی کی۔'
اس کے جواب میں ایک شخص نے ترکی کے سات مختلف حصوں کی ذکر کیا اور کہا کہ وہاں چاول اگانے کے بہت سارے خطے ہیں۔
سیمی پاشا کی ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے ابھینو کھرے نامی ایک شخص نے حال ہی میں وفات پانے والے معروف شاعر راحت اندوری کے ایک شعر میں اختراع کرتے ہوئے لکھا:
'ہر کسی کی ریسیپی ہے شامل اس میں
 کسی کے باپ کی بریانی تھوڑی ہے'
سابق آئی جی پولیس ایم ناگیشور راؤ نے لکھا کہ 'بریانی کا بائیکاٹ کیوں کریں یہ ہماری ہندو تہذیب کی ڈش ہے۔ تم نے ہمارے پلاؤ کو چوری کر لیا اور اس کا نام بریانی رکھ لیا۔۔۔'

 

انڈیا میں بریانی خاصی پسند کی جاتی ہے اور گذشتہ دنوں کرناٹک کے ایک علاقے میں بریانی کے لیے ڈیڑھ کلومیٹر لمبی قطار والی ایک ویڈیو کو خبر رساں ادارے نے ٹویٹ کیا تھا۔
اسے 1500 بار سے زیادہ ری ٹویٹ کیا گیا اور سات ہزار سے زیادہ لائکس ملے جب تک 3 لاکھ 77 ہزار سے زائد افراد یہ ویڈیو دیکھ چکے ہیں۔
اس سب کے باوجود انڈیا کی فضا میں منافرت کی گونج واضح طور پر نظر آتی ہے اور یہ صرف سوشل میڈیا تک محدود نہیں ہے۔
الیکٹرانک میڈیا میں یک طرفہ مباحثے اور منافرت کے پیش نظر کچھ دن قبل بسکٹ بنانے والی معروف کمپنی 'پارلے جی' نے عہد کیا تھا کہ اب وہ ایسے میڈیا ہاؤسز کو اپنے اشتہارات نہیں دے گے جہاں منافرت پھیلائی جاتی ہے۔
اسی طرح جب انڈین کرکٹر مہندر سنگھ دھونی کی بیٹی کے ساتھ ریپ کرنے کی دھمکی سوشل میڈیا پر سامنے آئی تو معروف آٹوموبل کمپنی بجاج کے مینجنگ ڈائریکٹر نے کہا کہ بجاج آٹو سماج میں نفرت پھیلانے کے حق میں نہیں ہے اور اس لیے انھوں نے تین نیوز چینلز سے اپنے اشتہارات واپس لے لیے ہیں۔
باخبر رہیں، اردو نیوز کو ٹوئٹر پر فالو کریں

شیئر:

متعلقہ خبریں