Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا رادھا واقعی ناچے گی؟

بی جے پی نے کہا ہے کہ اگر بہار میں حکومت بنتی ہے تو ہر شخص کو مفت ٹیکا لگایا جائے گا (فوٹو: اے ایف پی)
آپ نے سیاست کی بیماری تو بہت سے لوگوں میں دیکھی ہوگی، جنوب ایشیا میں تو یہ کسی مہلک وبا سے کم نہیں ہے اور شاید ہی کوئی اس سے محفوظ ہو، لیکن اس کے بر عکس بیماری کی سیاست ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔
اس لیے جب بھارتیہ جنتا پارٹی نے بہار کے اسمبلی انتخابات کے لیے اپنے منشور کا اعلان کیا تو بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
آپ کہیں گے کہ آنکھ کھلی رہ جانا بھی ایک خطرناک بیماری ہے لیکن اس کی تشخیص اور تجویز پھرکبھی، آج صرف اس بیماری کا ذکر جس سے اگر بہار کی عوام کو بچنا ہے تو انہیں بی جے پی کو ووٹ دینا ہوگا۔
جی ہاں، ٹھیک سمجھے آپ۔ بات کورونا وائرس کی ہی ہو رہی ہے، اس سے چھوٹی بیماری، چاہے زیادہ مہلک ہی کیوں نہ ہو، آج کل کس گنتی میں آتی ہے۔
بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں نوجوانوں کے لیے نوکریوں کا وعدہ تو کیا ہی ہے، روزگار کے وعدے کے بغیر الیکشن جیتنے کا خواب دیکھنا یا پرچہ داخل کرنا بھی پیسے کا زیاں ہی ہے۔ لیکن اس کا پہلا وعدہ یہ ہے کہ اگر بی جے پی کی حکومت بنتی ہے تو بہار میں ہر شخص کو، چاہے وہ امیر ہو یا غریب، کورونا وائرس کا مفت ٹیکا لگایا جائے گا۔ دونوں کا آپس میں براہ راست تعلق ہے لیکن فی الحال عام لوگوں کی سمجھ میں نہیں آیا ہے۔
وہ لوگ جن کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں تھی، ان میں شامل ہیں۔ وہ بی جے پی پر بیماری کی سیاست کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ کورونا وائرس سے لوگ مر رہے ہیں، جو بچ گئے ہیں ان کی زندگیاں تباہ ہو رہی ہیں اور اگر پوری طرح تباہ نہیں بھی ہوئیں تو پٹری سے اتر گئی ہیں اور اگر پٹری پر ہی ہیں تو آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف چل دی ہیں، اس لیے کورونا وائرس کو سیاست سے الگ ہی رکھا جانا چاہیے تھا۔
لیکن سیاست میں کوئی بھی بات اتنی سیدھی سادھی نہیں ہوتی۔ مفت ٹیکے کے بہت سے فائدے ہوں گے۔ ذرا سوچیے کہ اگر بی جے پی نے لاکھوں نئی نوکریوں کا اپنا وعدہ پورا کردیا لیکن لوگ کورونا وائرس کے مرض میں گھرے رہے تو نوکریوں پر کیسے ہوں گے؟ نئی نوکریوں کا فائدہ تو تبھی ہے جب لوگوں کے جسم اور ذہن بھی صحت مند ہوں۔

جب چاند پر پانی مل سکتا ہے تو بہار میں نوکریاں کیوں نہیں مل سکتیں (فوٹو: اے ایف پی)

آپ شاید کہیں گے کہ بلا وجہ کی بات کیوں کر رہے ہو بھائی؟ نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا کو ناچنے کی ضرورت پڑے گی لیکن معجزے ہو بھی جاتے ہیں۔
مانا کہ موجودہ حالات میں اس بات کا چانس کافی کم ہے کہ کوئی بھی حکومت لاکھوں کی تعداد میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کر پائے گی، جب اچھے وقتوں میں نہیں ہوا تو اب کیا ہوگا، لیکن ایسا ہو بھی سکتا ہے اس لیے رادھا کو ناچنے کے لیے تیار تو رہنا ہی چاہیے۔
جب چاند پر پانی مل سکتا ہے تو بہار میں نوکریاں کیوں نہیں مل سکتیں، ایسا تو ہے نہیں کہ وہاں تب پانی نہیں ہوگا جب امریکی خلاباز چاند کی زمین پر گھومتے پھر رہے تھے، بس یہ سب چانس کی بات ہے، کب کس کی لاٹری لگ جائے کسے خبر ہے؟
لیکن یہ اعلان ذرا مختلف انداز میں کیا جاسکتا تھا۔ اگر بی جے پی کہتی کہ ہم ریاست میں حفظان صحت کا سرکاری نظام ایسا کر دیں گے کہ پرائیویٹ ہسپتال ہوٹلوں میں تبدیل ہونے لگیں گے، اور آپ کو چاہے جو بھی بیماری ہو، بس اپنے نزدیکی سینٹر کا رخ کیجیے گا اور پلک جھپکتے ہی علاج ہو جائے گا۔
وہاں ان لوگوں کے علاج کا بھی انتظام ہوگا جن کی چھوٹی موٹی باتوں پر بھی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں اور ان کے لیے بھی انتظام ہوگا جو بیماریوں سے بچنا چاہتے ہیں۔ پھر چاہے وہ کورونا وائرس ہی کیوں نہ ہو، سینٹر گئے اور ٹیکا لگوا لیا۔ پھر کورونا بھی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور آپ بے فکری کے ساتھ سیدھے اپنے نئے دفتر جائیے گا جہاں ایک اچھی نوکری آپ کا انتظار کر ہی ہوگی۔

اگر مشکل کی اس گھڑی میں کرایہ وصول کر لیا تھا تو اب ٹیکہ فری لگانے کا خیال کیوں آیا؟ (فوٹو: اے ایف پی)

لیکن ٹیکے کی سیاست کے نقصان بھی ہوتے ہیں۔ بی جے پی کے اس اعلان کا مطلب یہ ہے کہ اب پورے ملک میں کوئی بھی حکومت ٹیکے کی قیمت وصول کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔ اگر پیسے مانگے تو لوگ کہیں گے کہ ذرا بی جے پی کو دیکھو، اسے ہماری صحت کی کتنی فکر ہے اور ایک تم ہو، پیسہ اینٹھنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
جب پورے ملک میں اچانک لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا تھا اور پلک جھپکتے ہی لوگوں کی آمدنی ختم ہوگئی تھی اور لاکھوں لوگ پریشان ہو کر پیدل ہی دور دراز علاقوں میں اپنے گھروں کے لیے نکل پڑے تھے، اس وقت بھی کافی سیاست ہوئی تھی۔
بی جے کو غریب لوگوں کے مصائب کو نظرانداز کرنے اور نااہلی کے ساتھ لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے الزام کا سامنا تھا۔ ہفتوں بعد مجبوراً حکومت نے کچھ ٹرینوں کا انتظام کیا تھا لیکن اس وقت ان لوگوں سے بھی ٹکٹ کے پیسے وصول کیے گیے تھے جن میں سے زیادہ تر کے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں تھا۔
ان میں ایک بڑی تعداد بہاریوں کی تھی کیونکہ بہار سے بڑی تعداد میں لوگ نوکریاں کرنے دوسری ریاستوں کو جاتے ہیں۔ وہ اس لیے کہ بہار میں غربت بہت زیادہ ہے اور نوکریاں بہت کم۔
اگر آپ کے ذہن میں یہ سوال اٹھے کہ اگر مشکل کی اس گھڑی میں کرایہ وصول کر لیا تھا تو اب ٹیکہ فری لگانے کا خیال کیوں آیا؟

غریبوں کو ٹیکا فری ملنا چاہیے، اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

اگر آپ کو جواب مل جائے تو ہمیں بھی بتائیے گا، اپنی سمجھ سے تو یہ بات باہر ہے۔ لیکن یہ سوال پھر جو بائڈین سے بھی کیجیے گا جو امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار ہیں۔
انہوں نے بھی سب کے لیے فری ٹیکے کا اعلان کیا ہے، لگتا ہے کہ اتنا مصروف ہونے کے باوجود وہ بہار کے الیکشن کو فالو کرتے ہیں۔
غریبوں کو ٹیکا فری ملنا چاہیے، اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے لیکن ٹیکے کے سائڈ افیکٹس یا مضر اثرات کا پہلے باریکی سے جائزہ لیا جانا چاہیے۔
اگر ٹیکا لگنے کے بعد آپ کی انگلی ووٹنگ کے وقت خود بہ خود اس بٹن کو دبائے جس پر مفت ٹیکہ فراہم کرنے والی پارٹی کا انتخابی نشان ہو تو یہ ٹیکے کا سائڈ افیکٹ ہوسکتا ہے۔
لیکن اگر ٹیکا لگنے سے پہلے ہی ایسا ہونے لگے تو ہو سکتا ہے کہ یہ بیماری کی سیاست کا سائڈ افیکٹ ہو۔  

شیئر:

متعلقہ خبریں