Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ستارے زمین پر

ممبئ پولیس نے ریا چکربورتی کو حراست میں لیا تھا تاہم بعد میں ان کو ضمانت پر رہا کیا گیا (فوٹو: اے ایف پی)
آپ نے شاید سنا ہوگا کہ اس ہفتے بالی وڈ کے سب سے بڑے ستارے نہ صرف زمین پر اترے بلکہ انصاف اور تحفظ کی تلاش میں دلی ہائی کورٹ کےدروازے پر دستک دینے پہنچ گئے۔
ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے لیکن پانی شاید سر سے گزر گیا ہوگا۔ ورنہ ان میں سے زیادہ تر کے پاس کہاں فرصت ہے کہ کسی کے پھڈے میں ٹانگ اڑائیں۔ وہ منفی ردعمل کے خوف سے خاموش ہی بیٹھنا پسند کرتے ہیں، ہمیشہ یہ ڈر رہتا ہے کہ اگر کسی سماجی یا سیاسی تنازع پر کچھ بولے تو ان کی فلموں کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ اور فلموں سے ان کی روزی روٹی چلتی ہے۔
فلموں سے روزی روٹی تو ہالی وڈ کے سٹارز کی بھی چلتی ہے لیکن وہ کبھی سٹینڈ لینے سے نہیں گھبراتے۔ لیکن یہ بحث پھر کسی دن، آج ذکر صرف اظہار خیال اور پریس کی آزادی کا جو سشانت سنگھ راجپوت کی موت کے بعد سے سرخیوں میں ہیں۔
بالی وڈ کو دو ٹی وی چینلوں سے شکایت ہے جو ان کے مطابق پوری فلم انڈسٹری کو نشیڑیوں کے اڈے کے طور پر پیش کرنے میں لگے ہوئے ہیں: ریپبلک ٹی وی اور ٹائمز ناؤ۔ ایسا لگتا ہے کہ دونوں کو ہی یہ کنفیوژن ہے کہ پریس کی آزادی اور اظہار خیال کی آزادی کا مطلب یہ ہے کہ جوابدہی کی پرواہ کیے بغیر جس کے بارے میں جب جو چاہا کہہ دیا۔
لیکن آپ مانیں یا نہ مانیں، اظہار خیال کی آزادی کی بھی حدیں ہوتی ہیں، مان لیں تو بہتر ہوگا کیونکہ کچھ چیزیں دوسروں کے تجربوں سے سیکھنے میں ہی سمجھداری ہوتی ہے۔
لیکن اگر آپ ٹی وی نیوز کے شوقین ہیں تو آپ کو لگتا ہوگا کہ یہ سب بکواس ہے، آپ جو چاہیں کہہ یا کر سکتے ہیں، کس کی ہمت ہے کہ آپ کا کچھ بگاڑ لے۔

سشانت سنگھ راجپوت نے 14 جون کو ممبئی میں واقع اپنی رہائش گاہ پر خودکشی کی تھی (فوٹو: اے ایف پی)

تو جناب یہ بات سچ ہے لیکن صرف ٹی وی چینلوں کے لیے لاگو ہوتی ہے۔ آپ خود مت ٹرائی کیجیے گا، ہو سکتا ہے کہ مضمرات آپ کی صحت لیے اچھے ثابت نہ ہوں۔
ٹی وی چینلوں کی اظہار خیال کی آزادی وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں ہم جیسوں کی ختم ہوجاتی ہے۔ یا کم سے کم انہیں ایسا لگتا ہے۔ وہ چاہیں تو پلک جھپکتے کسی کو فلک پر بٹھا دیں اور پھر چاہیں تو خاک میں ملا دیں۔
یہ ہی ان کی سب سے بڑی طاقت ہے اور اسی لیے جب لوگ پیسہ کما لیتے ہیں تو انہیں لگتا ہے کیوں نہ ایک ٹی وی نیوز چینل کھول لیا جائے۔ 
میں انڈین ایکسپریس کے سابق ایڈیٹر شیکھر گپتا کا ایک کالم پڑھ رہا تھا جس میں انہوں نے بنیادی طور پردو تین باتیں کہی ہیں: چینل کھولتے ہی آپ کو سیاست کے ایوانوں تک غیر معمولی رسائی مل جاتی ہے، آپ کے پروگراموں میں کبھی وزیراعلیٰ اور کبھی وزیر اعظم شرکت کرتے ہیں، اگر آپ حکومت وقت کا ساتھ دیں، جیسا کہ آج کل انڈیا میں ایک دو کو چھوڑ کر باقی سارے چینل کرتے ہیں تو اس کے اپنے فوائد ہیں، ایک دو بڑے کانٹریکٹ مل جانا کوئی بڑی بات نہیں، اور اگر ساتھ نہیں دیتے تو ایجنسیاں تو ہیں ہی، ان بے چاروں کو بھی تو اپنی روزی حلال کرنی ہے۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ مسٹر گپتا کے الفاظ بھلے ہی ذرا مختلف ہوں، مفہوم یہ ہی تھا۔
کچھ چینلوں نے گذشتہ دو مہینے دن رات یہ ثابت کرنے میں لگا دیے کہ ریا چکربورتی، جو آنجہانی فلم سٹار سشانت سنگھ راجپوت کی افسوسناک موت سے کچھ دن پہلے تک ان کی گرل فرینڈ اور ’لو ان پارٹنر‘ تھیں، منشیات کے دھندے میں ملوث تھیں۔ لیکن کئی ہفتے جیل میں گزارنے کے بعد جب بامبے ہائی کورٹ نے ریا کو ضمانت پر رہا کیا اور کہا کہ منشیات کے کاروبار سے ان کا کوئی تعلق نظر نہیں آتا، تو وہ چینل جو دن رات اس کیس کو کور کر رہے تھے، دوسری زیادہ اہم خبروں میں الجھے رہے جیسے انہیں خبر ہی نہ ہوئی ہو یا ضمانت ملنا کوئی بڑی بات نہ ہو۔ تب تک انہیں کوئی اور مل گیا تھا جسے ان کے خیال میں فوراً جیل بھیجنا ضروری تھا۔
آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ ٹی وی چینل یہ سب ٹی آر پی ریٹنگز کے لیے کرتے ہیں۔ جتنی زیادہ آپ کی ریٹنگ ہوگی، یعنی جتنے زیادہ لوگ کسی چینل کو دیکھتے ہیں، اشتہارات سے اتنی ہی زیادہ اس کی آمدنی ہوتی ہے۔

اداکار سشانت سنگھ راجپوت کے کیس کی تحقیقات ممبئی پولیس کر رہی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

اس لیے جب ممبئی پولیس نے گذشتہ ہفتے انکشاف کیا کہ ریپبلک سمیت تین چینل اپنی ٹی آر پی بڑھانے کے لیے مبینہ طور پر غریبوں کو پیسے دیتے تھے کہ وہ دن رات ان کا چینل دیکھیں تو بہت سے لوگوں کو حیرت نہیں ہوئی۔ زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کوئی راز نہیں ہے، ٹی آر پی ریٹنگز میں گھپلا ہوتا ہے یہ سب کو معلوم ہے لیکن سچ یہ ہے کہ اصل گھپلا خبروں کے انتخاب میں ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ممبئی پولیس کے الزامات غلط ثابت ہوں لیکن اصل کھیل وہ نہیں ہے۔ اصل کھیل یہ ہے کہ آپ صبح اپنی ایڈیٹورئل میٹنگ میں کس خبر کو ترجیح دینے کا فیصلہ کرتے ہیں اور اس خبر کے کن پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں۔
آپ کے لیے کیا زیادہ اہم ہے: عدالت سے پہلے ریا چکربورتی کو مجرم ثابت کرنا یا یہ سوال اٹھانا کہ معیشت کاحجم اگر تقریباً 10 فیصد گھٹتا ہے، جیسا کہ ریزرو بینک آف انڈیا نے اپنے تجزیے میں کہا ہے، تو عام آدمی پر اس کا کیا اثر پڑے گا، لوگوں کی زندگیاں کیسے متاثر ہوں گی، نوکریاں جو پہلے سے ہی شارٹ سپلائی میں تھیں کہاں سے آئیں گی اور اس صورتحال کے لیے کون ذمہ دار ہے اور ہاں، اس گہری کھائی سے نکلنے کے لیے کیا اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر آپ ٹی وی پر خبریں دیکھتے ہیں تو جواب آپ کو معلوم ہی ہوگا۔ گذشتہ دو تین ہفتوں میں آپ نے اپنے پسندیدہ ٹی وی چینل پر معیشت کی حالت کے بارے میں کتنی رپورٹنگ دیکھی ہے؟
لیکن آپ نے ٹی آر پی سے متعلق ممبئی پولیس کے دعوؤں کے بارے میں کافی کچھ دیکھا ہوگا۔ ٹی وی چینل کھل کر ایک دوسرے کو نشانہ بنا رہے ہیں، ایک دوسرے پر الزامات لگا رہے ہیں اور خود کو صاف شفاف ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اور اس سب کے بیچ ایک چینل ہے جو کھل کر ممبئی پولیس اور ریاست کی حکومت کو چیلنج کر رہا ہے۔اسی چینل نے پہلے مہارشٹر کے وزیراعلیٰ اودھو ٹھاکرے اور ان کی پارٹی کے سینئر لیڈر سنجے راؤت کو آن ائر چیلنج کیا تھا کہ ہمت ہے تو سامنے آؤ، میں تمہارا انٹرویو کروں گا۔۔۔
نہ ہمیں چیلنج کیا گیا تھا اور نہ ہم نے کسی کو چیلنج کیا تھا لیکن پھر بھی دانتوں تلے انگلی دبا کر بس یہ سوچ رہے تھے کہ یہ کس سٹائل کی صحافت ہے جہاں انٹرویو کی دعوت لائیو ٹی وی پر اس انداز میں دی جاتی ہے جسے دنگل ہو رہا ہے۔

سشانت سنگھ راجپوت کیس میں بالی وڈ میں منشیات کے استعمال کی بات سامنے آئی تھی (فوٹو: اے ایف پی)

اور جب اس چینل کے دفاع میں حکمراں جماعت کے صدر اور وفاقی وزیراطلاعات و نشریات دونوں بیان دیں اور کہیں کہ پریس کی آزادی کو دبایا جا رہا ہے تو پھر آپ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اگر بات معیشت کی ہو رہی ہوتی اور حکومت کو کٹگھرے میں کھڑا کیا جارہا ہوتا تب بھی کیا پریس کی آزادی کا اتنا ذکر کیا جاتا؟
یہ بقا باہم کا زمانہ ہے۔ جیو اور جینے دو۔ بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ میڈیا کو ریگیولیٹ کرنے کا وقت آگیا ہے۔ لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا کون؟
میں نے ایک ٹی وی چینل پر دو اینکرز کو آپس میں بات کرتے ہوئے سنا کہ ایک زمانہ تھا کہ ہمارے والدین ہم سے کہتے تھے کہ اچھی زبان سیکھنی ہے اور دنیا کے بارے میں باخبر رہنا ہے تو خبریں سنا کرو لیکن کیا واقعی ہم اپنے بچوں سے یہ بات کہہ سکتے ہیں؟

گذشتہ کئی ماہ سے ٹی وی چینلز پر سشانت سنگھ راجپوت کے کیس کی کوریج ہو رہی ہے (فوٹو: پکسا بے)

شاید وقت آگیا ہے کہ ٹی وی پر خبریں رات 9 بجے کے بعد نشر کی جائیں جب بچے سو چکے ہوں۔ بہت سے ممالک میں ایسے پروگرام جو بچوں کے لیے مناسب نہیں ہوتے رات کو نو دس بجے کے بعد ہی نشر کیے جاتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ صورتحال بالکل بے قابو ہے اور ہم کچھ نہیں کرسکتے۔
بس ہمیں بھی اپنی ترجیحات پر فوکس کرنا ہوگا۔ جب خود ہماری دلچسپی ریا چکربورتی کو جیل بھیجنے میں ہے تو چینلوں اور سیاسی رہنماؤں کی کیا غلطی ہے، اگر خود ہمیں اپنی نوکریوں اور روزگار کی فکر نہیں ہے تو چینل والوں کو کیا پڑی ہے کہ وہ بلا وجہ محنت کرتے پھریں۔
لیکن جو کھیل ٹی وی چینل کھیلتے ہیں اسے بنانا یا بگاڑنا آپ کے ہاتھ میں ہے، بس ہاتھ بڑھائیے اور ریموٹ اٹھائیے۔

شیئر: