Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جو بائیڈن: لُکنت سے صدارت تک

جو بائیڈن کالج کے ابتدائی دو سال تعلیم سے کہیں زیادہ پارٹیز اور کھیلوں میں دلچسپی رکھتے تھے۔ فوٹو: اے ایف پی
’میری جوانی اور کالج کے دنوں میں مرد اور عورتیں ملک بدل رہے تھے۔ مارٹن لوتھر کنگ، جان ایف کینیڈی، رابرٹ کینیڈی۔ اور میں ان کی فصاحت، یقین اور خوابوں کے ساتھ بہتا چلا گیا۔‘
یہ کہنا ہے امریکہ کے نو منتخب صدر جو بائیڈن کا۔ 20 نومبر 1942 کو پیدا ہونے والے جو بائیڈن جو امریکہ کے چھیالیسویں صدر منتخب ہونے کے صرف تقریباً دو ہفتے بعد اپنی 78 ویں سالگرہ منا کر ملک کے معمر ترین صدر ہونے کا اعزاز بھی حاصل کریں گے۔
جو بائیڈن کی زندگی جہاں ایک طرف شاندار سیاسی و سماجی جدوجہد سے عبارت ہے وہاں ذاتی حوالوں سے انہیں بہت دکھ بھی اٹھانے پڑے۔ اور کئی مرتبہ یہ دکھ ان کی سیاسی کامیابیوں کے آڑے آ گئے یا انہیں گہنا گئے۔
جب نومبر 1972 میں 29 سال کی عمر میں وہ امریکہ کے پانچویں کم عمر ترین سینیٹر منتخب ہوئے۔ اس کے کچھ ہی دنوں بعد ان کی اہلیہ اور بیٹی ایک کار حادثے میں ہلاک ہو گئیں جبکہ دو بیٹے شدید زخمی ہو گئے۔ نتیجتاً بائیڈن کو اپنی حلف برداری کی تقریب چھوڑنا پڑی اور انہوں نے سینیٹ کا حلف ہسپتال سے اپنے بیٹوں کے بستر کے قریب لیا۔
یہ وہ وقت تھا جب انہوں نے خودکشی کے بارے میں سوچا۔ تاہم خاندان کی حوصلہ افزائی کے باعث انہوں نے اپنا سیاسی سفر جاری رکھا اور وہ اپنا دن واشنگٹن میں سینیٹ میں لوگوں کی نمائندگی کرتے گزارتے اور رات کو اپنے شہر ویلمنگٹن میں اپنے زخمی بیٹوں کے بستر کے قریب۔ 
ان دنوں وہ روزانہ ویلمنگٹن سے واشنگٹن تقریباً 180 کلومیٹر کا سفر صبح شام طے کرتے۔
پھر 2015 میں جب وہ اگلے سال ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے پر تول رہے تھے عین اس وقت ان کے 46 سالہ بیٹے بیئو بائیڈن بلد کینسر کے باعث انتقال کر گئے۔ اور جو بائیڈن نےانتخابات سے یہ کہہ کر دستبرداری اختیار کر لی کہ صدارتی انتخاب کا باب اب ان کے لیے بند ہو گیا ہے۔ تاہم وہ اپنی پارٹی اور قوم کے لیے واضح طور پر اور پوری قوت سے بولتے رہیں گے۔  

ہر بڑے سیاسی رہنما کی طرح جو بائیڈن بھی اپنے کیئریئر کے دوران تنازعات سے دامن نہیں بچا سکے۔ فوٹو: اے ایف پی

لیکن سال 2020 کے انتخابات کے لیے ڈیمو کریٹس کی اکثریت نے ان کو امیدوار بنانے کے حق میں رائے دی اور بالآخر 3 نومبر کے انتخابات میں ایک دلچسپ مقابلے کے بعد وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے۔

سیاسی کیئریئر

1968 میں قانون میں گریجوایشن کے بعد بائیڈن نے ویلمنگٹن میں ایک لا فرم سے پریکٹس شروع کی۔ اس کے ساتھ ہی وہ ڈیموکریٹک پارٹی میں بھی شامل ہو گئے اور 1970 میں کیسل کاونٹی کے کونسلر منتخب ہو گئے۔
1972 میں ڈیموکریٹس نے حیران کن طور پرانہیں ری پبلکن کے معروف سینیٹر جے کیلب باگس کے مقابلے میں انتخاب لڑنے کے لیے نامزد کر دیا۔ کسی کو امید نہیں تھی کہ بائیڈن یہ انتخاب جیت سکیں گے لیکن ان کی ذاتی اور ان کے خاندان کی بھر پور مہم کے نتیجے میں وہ ایک اپ سیٹ کامیابی حاصل کرتے ہوئے امریکہ کی تاریخ میں پانچویں کم عمر ترین سینیٹر منتخب ہوئے۔
اس کے بعد سال 2009 تک وہ سینیٹ کے رکن رہے۔ اس سفر میں انہوں نے خارجہ پالیسی کے نمایاں ماہر کے طور پر شہرت حاصل کی اور کئی سال تک خارجہ تعلقات کمیٹی کے سربراہ رہے۔ 

نومبر 1972 میں 29 سال کی عمر میں جو بائیڈن امریکہ کے پانچویں کم عمر ترین سینیٹر منتخب ہوئے۔ فائل فوٹو: ان سپلیش

جو بائیڈن نے عراق جنگ کی کھل کر مخالفت کی اور نیٹو کو سابقہ سوویت ریاستوں تک توسیع دینے کے علاوہ سوویت یونین کے ساتھ تزویراتی ہتھیاروں کو محدود کرنے کی حمایت کی۔
جو بائیڈن نے پہلی مرتبہ 1987 میں صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ تاہم وہ پرائمریز سے آگے نہ بڑھ سکے۔

امریکہ کے نائب صدر کے لیے تقرر

صدارتی انتخاب کی پہلی کوشش میں ناکامی کے 20 سال بعد بائیڈن نے 2007 میں ایک مرتبہ پھر ملک کا سربراہ بننے کے لیے انتخاب میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ تاہم وہ باراک اوبامہ اور ہیلری کلنٹن کی موجودگی میں حمایتیوں کو راغب کرنے میں ناکام رہے۔ لیکن ان کے لیے ایک اور سنہری دروازہ تب کھلا جب باراک اوباما نے ڈیمو کریٹس کی نامزگی حاصل کرنے کے بعد ان کو اپنے نائب صدر کے طور پر چنا۔ 
2 نومبر 2008 کو باراک اوباما اورجو بائیڈن ری پبلکن جان مکین اور سارہ پالن کو ہرا کر بالترتیب صدر اور نائب صدر منتخب ہوئے۔ وہ جلد ہی صدر اوباما کے لیے ایک ناگزیر پارٹنر بن گئے اور 2012 میں دونوں رہنما اپنے عہدوں پر دوبارہ منتخب ہو گئے۔ 

20 سال بعد بائیڈن نے 2007 میں ایک مرتبہ پھر ملک کا سربراہ بننے کے لیے انتخاب میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

12 جنوری 2017 کو صدر اوباما نے انہیں بطور نائب صدر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر امریکہ کا اعلیٰ ترین سول اعزاز تمغہ برائے آزادی عطا کیا اور انہیں تاریخ کا بہترین نائب صدر قرار دیا۔ اس سے بائیڈن کے صدارتی امیدوار بننے کے امکانات مزید روشن ہو گئے۔

تنازعات

ہر بڑے سیاسی رہنما کی طرح جو بائیڈن بھی اپنے کیئریئر کے دوران تنازعات سے دامن نہیں بچا سکے۔ ان پر تقریر چرانے سے لے کر متعدد عورتوں کی جانب سے جنسی طور پرحدود سے تجاوز کرنے کے الزامات بھی لگائے گئے۔ تاہم انہوں نے تمام الزامات کا کامیاب دفاع کیا اور الزامات انہیں سیاسی نقصان نہیں پہنچا سکے۔ 

جو بائیڈن کا بچپن

بائیڈن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بچپن میں بولنے میں لکنت سے نجات حاصل کرنے کے لیے گھنٹوں شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر بولتے رہتے۔

ہر بڑے سیاسی رہنما کی طرح جو بائیڈن بھی اپنے کیئریئر کے دوران تنازعات سے دامن نہیں بچا سکے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے سکول میں تعلیم کے ساتھ ساتھ کھڑکیاں اور باغیچے صاف کرنے کے کام بھی کیے تاکہ وہ اپنی تعلیم کے اخراجات پورے کر سکیں۔
وہ کالج کے ابتدائی دو سال تعلیم سے کہیں زیادہ پارٹیز اور کھیلوں میں دلچسپی رکھتے تھے۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ وہ تعلیم میں سنجیدگی اختیار کرتے گئے اور پھر سماجی خدمت اور سیاست میں سرگرم ہو گئے۔

شیئر: