Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

الیکٹرانک شناخت سعودی عرب کے ڈیجیٹل نظام کے لیے اہم

'شناختی کارڈ کے ذریعے بینکنک اور ٹیلی کمیونیکیشن میں بھی کمپیوٹرائزڈ نظام کے استعمال کے راستے کھلے‘ (فوٹو: اے ایف پی)
سعودی عرب میں شناختی کارڈ کا نظام دہائیوں سے ہے، جو حکومت اور متعلقہ اداروں کو مختلف قسم کے استعمال کے لیے عوام کے ذاتی ڈیٹا پر نظر رکھنے میں مدد دیتا ہے۔
حالیہ برسوں میں بہت سے ادارے کاغذات کے بجائے کمپیوٹر میں عوام کی معلومات محفوظ رکھنے کے نظام کی طرف جا رہے ہیں۔
سعودی عرب میں یہ نظام حکومت کے ڈیجیٹل رد و بدل کے منصوبے کے تحت 2007 کے اواخر سے شروع ہوا۔
اس کا آغاز 15 سال کی عمر سے بڑے تمام شہریوں کو علیحدہ سے کارڈز کے اجرا سے ہوا۔
حکومت کے لیے متعدد شعبوں میں معاونت فراہم کرنے والا ادارہ تھیلس سعودی عریبیہ کے سی ای او پیسکل لیسولنیئر نے عرب نیوز کو بتایا کہ '2008 میں ہم نے الیکٹرانک چپ کے ساتھ پہلے شناختی کا اجرا کیا تھا، جس میں شہری کا بائیوگرافک اور بائیومیٹرک ڈیٹا تھا۔'
انہوں نے بتایا کہ چپ والے شناختی کارڈ کے ذریعے بینکنک اور ٹیلی کمیونیکیشن میں بھی کمپیوٹرائزڈ نظام کے استعمال کے راستے کھلے۔
شہریوں کی شناخت محفوظ کرنے کے ڈیجیٹل نظام میں جو ملک سب سے آگے جا رہا ہے وہ ہے سنگاپور، جو کہ دنیا میں ایسا پہلا ملک ہے جہاں ستمبر میں چہرے کی شناخت کو شناخت کے قومی منصوبے کے طور پر اپنایا گیا۔
اس نئے نظام سے سنگاپور کے شہریوں میں ذاتی معلومات کے لیک ہونے کا ڈر پیدا ہو گیا ہے، لیکن وہاں کی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ مستقبل کی ڈیجیٹل معیشت کے لیے اہم ہے۔

الیکٹرانک شناختی کارڈ جی سی سی ممالک میں سفر کی سرکاری دستاویز کے طور پر بھی استعمال ہوسکتا ہے (فوٹو: ایس پی اے)

سعودی عرب میں شہریوں کی زندگی کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے ڈیجیٹل نظام کو آگے لے جانے پر تیزی سے کام جاری ہے۔
پیسکل لیسولنیئر کے مطابق ای آئی ڈی کی مدد سے حکومت سکیورٹی کے نظام کو بہتر بنا سکتی ہے اور الیکٹرانک ایپلی کیشن سے عوام کا کام آسان ہوسکتا ہے۔
سال 2011 میں سعودی وزارت داخلہ نے شہریوں کو 2012 اور 2013 میں میعاد ختم ہونے والے شناختی کارڈز اپ ڈیٹ کرنے کا کہا تھا تاکہ انہیں نئے نظام کی طرز پر بنایا جاسکے۔
دو سال بعد سعودی حکومت نے خواتین کے لیے پہلے شناختی کارڈ کے نظام کو متعارف کروایا جو ان کے شوہر اور والد کے نام کے بغیر بنے۔

 سعودی عرب میں یہ نظام، حکومت کے ڈیجیٹل رد و بدل کے منصوبے کے تحت 2007 کے اواخر سے شروع ہوا (فوٹو: عرب نیوز)

سعودی شہریوں کے نئے شناختی کارڈز میں ان کے حج کا بھی ریکارڈ موجود ہے۔
اس کے علاوہ اسے خلیج تعاون کونسل کے تمام ممالک میں سفر کی سرکاری دستاویز کے طور پر بھی استعمال کیا سکتا ہے۔
پیسکل لیسولنیئر نے بتایا کہ اس شناختی کارڈ میں رکھنے والے کی صحت کی بھی تمام معلومات موجود ہوتی ہے، جس تک ایمبولنس کا عملہ رسائی حاصل کر سکتا ہے جس سے انہیں متعلقہ شخص کا بلڈ گروپ اور دیگر طبی معلومات حاصل ہو سکتی ہیں۔ 'ہنگامی صورت حال میں اس طرح کی معلومات جان بچا سکتی ہیں۔'

شیئر: