Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گیس کھینچنے والے کمپریسر کیوں خطرناک ہیں؟

پاکستان میں سردیوں کے آغاز کے ساتھ ہی ملک بھر میں گیس کے دباؤ میں کمی کی شکایات بھی بڑھ جاتی ہیں۔ ایسے میں سب سے زیادہ گھریلو صارفین متاثر ہوتے ہیں۔
گیس دباؤ میں کمی کے باعث نہ صرف یہ کہ وقت پر ناشتہ اور کھانا نہیں ملتا بلکہ نہانے کے لیے گرم پانی دستیاب ہوتا ہے اور نہ ہی گھر گرم کرنے کے لیے گیس ہیٹر چلتا ہے۔
اس صورت حال سے بچنے کے لیے بہت سے صارفین پائپ لائن سے گیس کا زیادہ پریشر حاصل کرنے کے لیے غیر قانونی طور پر کمپریسر لگا لیتے ہیں جو دوسرے گھروں کے حصے کی گیس بھی کھینچ کر ان کے گھر منتقل کر دیتے ہیں۔

 

حکام کی جانب سے اس اقدام کے خلاف واضح تنبیہہ کے باوجود صارفین یہ غیر قانونی کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور جب تک چھاپہ مار کر ان کے گھروں سے یہ کمپریسر اتار نہ لیے جائیں، پورے علاقے میں گیس کا پریشر کم ہی رہتا ہے۔
یہ کمپریسر انتہائی خطرناک بھی ہیں اور بہت سے واقعات میں ان کے پھٹ جانے سے گھر والے شدید زخمی ہوچکے ہیں اور بعض اوقات جان سے بھی جاتے ہیں۔
ملک کے شمالی حصے کو گیس سپلائی کرنے والی کمپنی سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) کے مطابق گذشتہ سال چھاپہ مار کارروائیوں کے دوران صرف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے 600 سے زائد غیرقانونی گیس کمپریسر پکڑے گئے جب کہ رواں سال اب تک کمپریسر لگانے پر 160 گھروں کے گیس کنکشنز منقطع کیے جا چکے ہیں۔
کمپریسر کے ذریعے گیس چوری کے یہ واقعات زیادہ تر اسلام آباد کے دیہی علاقوں ترنول، سنگجانی، گولڑہ، میرا بادی، ترلائی، کھنہ، ترامڑی اور بہارہ کہو میں ہوئے ہیں جہاں گیس پریشر ویسے ہی کم ہوتا ہے۔

حکام کے مطابق رواں سال کمپریسر لگانے پر اب تک 160 گھروں کے گیس کنکشنز منقطع کیے جا چکے ہیں (فوٹو: ایس ایس جی سی)

گیس کمپریسر کیسے کام کرتا ہے اور یہ کیوں خطرناک ہے؟

گیس کمپریسر ایک الیکٹریکل ڈیوائس ہے جس کا کام پائپ میں موجود گیس کو اپنی طرف کھینچ کر چولہے، گیزر یا ہیٹر کے برنر تک پہنچانا ہوتا ہے۔
سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ کے مطابق اوگرا قانون کے تحت کمپریسر جیسے غیر محفوظ آلات کے استعمال کی اجازت نہیں ہے کیونکہ اس سے نہ صرف انسانی زندگیوں کو خطرہ ہوتا ہے بلکہ دوسروں کی حق تلفی بھی ہوتی ہے۔
کمپریسر سے گھروں میں گیس بھر جاتی ہے اور نتیجتاً سوتے میں دم گھٹنے، آگ لگنے اور دھماکوں جیسے واقعات ہوتے ہیں۔
سوئی نادرن گیس پائپ لائنز اسلام آباد ریجن کے جنرل مینیجر محمد ظہور نے ’اردو نیوز‘ کو بتایا کہ گیس کی زیادتی انسانی زندگیوں کے لیے خطرناک ہے اور کمپریسر کے استعمال سے جانی اور مالی نقصان کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

پاکستان میں سردیوں کے دوران گیس دباؤ میں کمی سے گھریلو صارفین زیادہ متاثر ہوتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

’اگر آپ کمپریسر کا استعمال کریں گے تو یہ گیس کو کھینچے گا جس سے بل زیادہ آئے گا جسے ادا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ گیس انسانی زندگیوں کے لیے خطرہ بھی ہے جب کہ اس کے باعث ہونے والے حادثات مالی اور جائیداد کے نقصانات کا باعث بھی بنتے ہیں۔‘
محکمہ گیس نے کمپریسر کے استعمال کو روکنے کے لیے گیس کنکشنز منقطع کرنے، بھاری جرمانے عائد کرنے اور مقدمہ دائر کرنے کی حکمت عملی اپنائی ہوئی ہے، لیکن اس کے باوجود اس کے استعمال میں خاطر خواہ کمی نہیں آئی۔

محکمہ گیس کمپریسر والے گھروں کا سراغ کیسے لگاتا ہے؟

سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ کے مطابق جس طرح واپڈا کا ٹرانسفارمر ہوتا ہے، گیس کا اسی طرح کا ٹاؤن بارڈر سٹیشن ہوتا ہے۔ اس کی نگرانی سے یہ پتا چل جاتا ہے کہ فلاں پائپ لائن میں گیس کا بہاؤ تیز ہوگیا ہے، یعنی گیس کھینچی جا رہی ہے۔

 اوگرا قانون کے تحت کمپریسر جیسے غیر محفوظ آلات کے استعمال غیر قانونی ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)

'محکمہ گیس کے اہلکار اس سمت جا کر ہر گھر کے میٹرز چیک کرتے ہیں۔ جس گھر میں کمپریسر ہوتا ہے اس کا میٹر بہت تیزی سے چل رہا ہوتا ہے۔ گیس والے اس گھر کے اندر جا کر کمپریسر اتار لیتے ہیں اور اس کا گیس کنکشن منقطع کر دیتے ہیں۔ پھر اس گھر کے سربراہ کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جاتی ہے۔'
محمد ظہور کے مطابق 'گیس ایک قدرتی ایندھن ہے اور اس کا بہاؤ بھی قدرتی طور پر ہے۔ اگر تمام صارفین اپنی اور دوسروں کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے استعمال کریں تو شاید کسی کو بھی گیس کی قلت کا سامنا نہ ہو اور کمپریسر کی ضرورت ہی نہ پڑے۔'

شیئر:

متعلقہ خبریں