Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ریپ کے مقدمات کے لیے خصوصی عدالتیں بنانے کا فیصلہ‘

پاکستان کی وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا ہے کہ خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مجرموں کو جلد اور سخت سزائیں دلوانے کے لیے الگ سے نئے قانون کی کابینہ نے اصولی منظوری دے دی ہے۔
انہوں نے منگل کو کابینہ اجلاس کے بعد ٹویٹ میں کہا کہ ’بل کا مسودہ قانون سازی سے متعلق کابینہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا ہے جو آنے والے دنوں میں اسے حتمی شکل دے گی۔‘
اس سے قبل اردو نیوز کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق کا کہنا تھا کہ اس بل کے تحت نہ صرف جنسی زیادتی کی نئی اور وسیع تعریف کی گئی ہے بلکہ خصوصی عدالتوں کے قیام اور مقدمے کا فیصلہ کرنے کا ٹائم فریم بھی متعین کیا گیا ہے۔ جنسی زیادتی کی شکار خواتین اور گواہوں کو تحفظ بھی فراہم کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ’جب ایسے واقعات ہوتے ہیں اور قانون صحیح طریقے سے حرکت میں نہیں آتا تو ہمیں قانون کی خامیوں کا پتہ چلتا ہے۔ جہاں تک جنسی زیادتی کا تعلق ہے اس بارے پاکستان ضابطہ فوجداری میں اس کے بارے میں سزائیں ہیں۔ لیکن ایک تو سسٹم بالکل کام نہیں کر رہا، ہمیں واضح ہو گیا تھا کہ نیا بالکل الگ سے قانون آنا چاہیے۔‘

 

انھوں نے کہا کہ 'کابینہ کے فیصلے کی روشنی میں وزیر اعظم نے وزارت قانون کو کہا تھا کہ نئے بل کا مسودہ تیار کریں۔ آپ کو پتہ ہے فیصلے ہو جاتے ہیں اس پر عمل در آمد میں بہت دیر لگتی ہے۔ آپ کو دباو ڈالنا پڑتا ہے وہی بات ہوئی جب وزیر اعظم نے پوچھا کہ وہ قانون کا مسودہ کہاں ہے تو پھر میں نے کہا کہ وزارت قانون میں ہے۔ وزیر اعظم نے وزیر قانون، مجھے اور بیرسٹر علی ظفر کو بلایا اور کہا کہ اب منگل کو کابینہ میں آپ مسودہ تیار کر کے پیش کریں۔ اب اس کو حتمی شکل دے رہے ہیں۔'
انھوں نے بل کی  چیدہ خصوصیات بتاتے ہوئے کہا کہ 'یہ بل ایک نیا اور الگ قانون ہو گا۔ جس میں جرائم کی تعریفیں بھی زیادہ واضح ہیں۔ خصوصی عدالتیں ہوں گی جن کے پاس فیصلہ کرنے کے لیے ٹائم فریم ہوگا کہ اتنی دیر میں آپ نے ریپ کیس کا فیصلہ کرنا ہے۔ یہ نہیں کہ کیس چلتا رہے۔ اس میں گواہوں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا اور ریپ متاثرین کا تحفظ ہوگا۔ '
ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ 'اس بل کی کابینہ اور پھر پارلیمنٹ سے منظوری کے باوجود اس پر عمل در آمد ایک چیلنج ہوگا۔ کوشش کریں گے کہ عمل در آمد اور جنسی جرائم کو روکا جائے۔'

'یہ بل ایک نیا اور الگ قانون ہو گا۔ جس میں جرائم کی تعریفیں بھی زیادہ واضح ہیں۔‘ (فوٹو: اردو نیوز)

جنوری میں اردو نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا تھا کہ حکومت جلد جبری گمشدگیاں روکنے کے حوالے سے قانون بنا رہی ہے۔ اس حوالے سے سوال پر شیریں مزاری نے کہا کہ 'جبری گمشدگیوں کے حوالے سے وزیر اعظم نے ایک کمیٹی بنائی جس کے دو اجلاس ہوئے۔ اس کے بعد کوئی اجلاس نہیں ہوا۔ میں نے وزیر قانون کو یاد دہانی کرائی ہے کہ اجلاس ذرا جلدی بلائیں تاکہ یہ مسئلہ حل ہو۔ ہمیں کابینہ کی طرف سے بھی آیا ہے کہ اس کو مسئلے کو ختم کریں۔ مسودہ قانون تو ہے لیکن اس پر سب کی رضا مندی چاہیے۔'
انھوں نے کہا کہ 'میں سمجھتی ہوں کہ  یہ قانون لانا بہت لازمی ہے۔ کیونکہ جمہوریت میں یہی بہتر ہے آپ قانون کو مضبوط کر دیں آپ عدالت میں پیش کر دیں۔ پھر آپ بے شک اس کو اپنی تحویل میں رکھیں۔ جو بھی کریں لیکن غائب کر دینا جس کا فیملی کو بھی نہ پتا ہو یہ آپ نہیں کر سکتے۔ اب اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی آیا ہوا ہے اور عدالتوں نے اس حوالے سے مزید فیصلے بھی دینے ہیں۔'

شیئر: