Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

'ایئر فورس کے افسر کو پی آئی اے سے نکالنے کی سفارش'

سینیٹر شیری رحمان کے مطابق خاتون کو کراچی سے اسلام آباد تبادلے کے لیے ہراساں کیا گیا۔ فوٹو اے ایف پی
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ایوی ایشن نے جنسی ہراسانی کے الزام میں ملوث پی آئی اے کے افسر کے خلاف باقاعدہ کارروائی کرنے کا کہا ہے۔
 ایئر فورس سے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) میں ڈیپوٹیشن پر آئے ہوئے افسر پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو ارشد ملک کے سپیشل اسسٹنٹ کے طور پر فائز تھے۔
جنسی ہراسگی کے الزامات سامنے آنے کے بعد ائیر فورس کے افسر کو گزشتہ سال پی آئی اے کے عہدے سے ہٹا کر معاملے کی انکوائری شروع کر دی گئی تھی تاہم پی آئی اے نے کہا تھا کہ الزامات کے ٹھوس شواہد نہیں ملے۔
قائمہ کمیٹی برائے ایوی ایشن کی رکن سینیٹر شیری رحمان نے کمیٹی کو بتایا کہ پی آئی اے کی خاتون افسر کو کراچی سے اسلام آباد تبادلے کے لیے جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا رہا اور جب ان کی ٹرانسفر کر دی گئی تو ٹرانسفر لیٹر کے لیے بھی ان کو ہراساں کیا گیا۔
منگل کے روز سینیٹر شیری رحمان نے اپنی تحقیقات کمیٹی کے سامنے پیش کیں جس کے سابق سپیشل اسٹنٹ کو پی آئی اے سے برطرف کر کے واپس ایئر فورس بھیجنے کا کہا گیا، اور باقاعدہ کارروائی کرنے کی تجویز دی گئی۔  
سینیٹر شیری رحمان نے کمیٹی اجلاس کے دوران خاتون اور افسر کے درمیان ہونے والی واٹس ایپ گفتگو سنائی اور کہا کہ ایسی گفتگو میں نجی محفل میں بھی دہرانا نہیں چاہتی۔ 
سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ ان کی وجہ سے ایئر فورس جیسے ادارے پر انگلیاں اٹھنے لگی ہیں۔ 
اجلاس کے دوران سینیٹر نعمان وزیر نے کمیٹی کی تجویز سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے تفصیلی تحقیقات کرنی چاہیں جو میسجز یہاں سنائے جا رہے ہیں ان کو غلط سیاق و سباق میں لیا گیا ہے۔ 

پی آئی اے کے سی ای او کے سپیشل اسسٹنٹ پر جنسی ہراسگی کا الزام ہے۔ فوٹو اے ایف پی

شیری رحمان نے واٹس ایپ گفتگو سناتے ہوئے کہا کہ دیگر معاملات اپنی جگہ ہوں گے لیکن گفتگو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پی آئی اے کے افسر نے جنسی طور پر خاتون کو ہراساں کیا۔ 
پی آئی اے کے چیف ہیومن ریسورس (ایچ آر) مینیجر عامر الطاف نے اجلاس کے دوران کہا کہ کمیٹی اس معاملے پر مزید تحقیق کرے صرف واٹس ایپ گفتگو پر فیصلہ نہ کیا جائے۔
انہوں نے اجلاس میں کہا کہ ’خاتون نے مجھے یہ بھی کہا تھا کہ فلاں افسر کو ڈسٹرکٹ مینجر بنا دیا جائے تو میں اپنا کیس واپس لے لیتی ہوں۔‘ 
اس دوران اجلاس میں موجود افسر نے اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کی وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے سامنے یہ گفتگو موجود نہیں اس لیے میں اس پر کوئی بات نہیں کر سکتا۔‘ کمیٹی کے اجلاس میں خاتون بھی موجود تھیں جنہوں نے ہراسگی کا الزام لگایا تھا۔
کمیٹی کے ارکان نے اجلاس میں موجود دونوں فریقین کو سننے کا فیصلہ کیا جس کے بعد اجلاس کو ان کیمرا کر دیا گیا۔ تاہم کمیٹی نے پی آئی اے افسر کو برطرف کرنے اور واپس ایئر فورس بھیج کر محکمانہ کروائی کرنے کی سفارش کی۔

شیئر: