Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’امریکہ کی واپسی‘ بائیڈن کی سیکیورٹی، خارجہ ٹیم متعارف

نومنتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے منگل کو سابقہ سفارتکاروں اور پالیسی میکرز پر مشتمل قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی سے متعلق ٹیم متعارف کراتے ہوئے اسے ’امریکہ کی واپسی‘ قرار دیا اور کہا کہ امریکہ دنیا کی پھر سے قیادت کے لیے تیار ہے۔
78 برس کے بائیڈن نے سیکرٹری خارجہ، قومی سلامتی کے مشیر، ہوم لینڈ سیکرٹری، انٹیلی جنس چیف، اقوام متحدہ کے لیے سفارتکار اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق نمائندے متعارف کرائے ہیں۔
ابتدائی ٹیم کے تعارف کے موقع پر اپنے عقب میں فیس ماسک پہنے کھڑے چھ مردوخواتین کے متعلق بائیڈن کا کہنا تھا کہ ’یہ عوامی خدمتگار امریکہ کی عالمی اور اخلاقی قیادت کو بحال کریں گے‘۔
انہوں نے کہا کہ 20 جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس چھوڑنے اور ان کے دور کے آغاز کے بعد امریکہ ’ایک مرتبہ پھر قیادت کے اس مقام پر ہو گا جہاں اپنے دشمنوں کا مقابلہ کیا جائے گا اور اتحادیوں کو مسترد نہیں کیا جائے گا‘۔
اپنی ٹیم کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’یہ لوگ ہیں جو دنیا کی قیادت سے پسپائی کے بجائے اس کے لیے تیار امریکہ کی واپسی کی حقیقت کا اظہار ہیں‘۔
بائیڈن کا یہ بیان ٹرمپ کی جانب سے الیکشن نتائج کو متنازعہ بنانے کی ان کوششوں میں مزید ناکامی کے بعد سامنے آیا ہے جس کے تحت وہ مختلف دعووں کے ذریعے انتخابات کو دھوکہ قرار دیتے رہے ہیں۔
منگل کو پنسلوانیا اور نیواڈا کی جانب سے تین نومبر کے الیکن نتائج کی توثیق کی گئی ہے۔ ایک روز قبل ریاست مشی گن بھی ایسا کر چکی ہیں۔ اس کے بعد جنرل سروسز ایڈمنسٹریشن (جی ایس اے) کی جانب سے اقتدار کی منتقلی کا عمل شروع کیا گیا ہے۔
اپنی پارٹی ریپبلکن کے مزید ارکان کی جانب سے تعطل کے خاتمے کے مطالبے کے بعد ٹرمپ نے منتقلی اقتدار سے متعلق امریکی ادارے جی ایس اے کو متعلقہ کاموں کی اجازت دی ہے جسے ان کی جانب سے شکست تسلیم کرنے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
دوسری جانب منگل کو ٹرمپ کی ایک ریٹویٹ بھی سامنے آئی ہے جس میں انہوں نے اول آفس میں اپنی تصویر شیئر کرتے ہوئے اس کے کیپشن میں لکھا ’میں نے کچھ بھی قبول نہیں کیا‘۔

74 برس کے ٹرمپ نے بعد میں وائٹ ہاؤس کے روز گارڈن میں تھینکس گونگ کے موقع پر منعقد کی جانے والی ایک روایتی تقریب میں شرکت کی۔
اس موقع پر انہوں نے نام لیے بغیر بظاہر انتخابات کا ذکر کرتے ہوئے کہا ’میں کہتا ہوں سب سے پہلے امریکہ، اس سے دور نہیں جا سکتے‘۔
دوسری جانب امریکی ادارے جی ایس اے کی جانب سے بائیڈن کو خفیہ معلومات تک رسائی دے دی گئی ہے اور ان کی ٹیم کو تیزی سے خراب ہوتی کوروبا وبا کی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے متعلقہ حکام سے رابطوں کی سہولت بھی دی جا رہی ہے۔ اس پیشرفت کے بعد بائیڈن روزانہ ہونے والی انٹیلی جنس بریفنگز میں شریک ہو سکیں گے۔
صدارتی انتخابات میں کامیابی کے بعد امریکی ابلاغی ادارے این بی سی کو دیے گئے پہلے انٹرویو میں بائیڈن کا کہنا تھا کہ ہم وائٹ ہاؤس میں کووڈ ٹیم کے ساتھ میٹنگ پر کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ صدارتی دفتر کے پہلے 100 دنوں میں کورونا بحران کا مقابلہ کریں گے، ماحولیات کو تباہ کرنے والی ٹرمپ کی پالیسیوں کو ختم کریں گے اور قانون سازی پر کام کریں گے جو غیرقانونی طور پر مقیم لاکھوں افراد کو شہریت تک رسائی مہیا کر سکے۔
بائیڈن کی متعارف کردہ ٹیم میں باراک اوبامہ کی ٹیم کے افراد بھی ہیں جو اس بات کی علامت ہے کہ وہ امریکہ کی روایتی سیاست اور کثیرالثقافتی کے معاملے کی طرف پلٹ رہے ہیں۔

بائیڈن نے صدارتی دفتر میں اپنے پہلے 100 دنوں کے ایجنڈے پر بھی بات کی ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

انہوں نے کہا کہ ’امریکہ دنیا میں اپنے مقام کی بحالی اور اتحاد بنانے والا بنے گا‘ تاہم انہوں نے اس بات سے انکار کیا کہ ان کا دور اوباما کی تیسری مدت صدارت جیسا ہو گا۔
بائیڈن کے مطابق ’ہم ایک کلی طور پر مختلف دنیا کا سامنا کر رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے معاملات کو تبدیل کر دیا ہے اب یہ سب سے پہلے امریکہ ہو گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ امریکہ تنہا ہو گیا ہے‘۔
بائیڈن کی جانب سے سیکرٹری خارجہ کے طور پر منتخب کیے گئے انٹونی بلنکن کا کہنا ہے کہ امریکہ عالمی مسائل کو تنہا حل نہیں کر سکتا ’ہمیں دوسرے ملکوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے‘۔

شیئر: