Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

استعفوں کی سیاست

پی ڈی ایم نے رواں سال اکتوبر میں حکومت مخالف تحریک کا آغاز کیا تھا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
پی ڈی ایم کی مجوزہ سیاسی تحریک اپنے حساب سے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔ اپنے حساب سے اس لیے کہ جلسوں کے سلسلے کا آخری جلسہ لاہور میں اپنے پلان کے مطابق ہو گا اور پچھلے جلسوں کی طرح تقریروں کے ساتھ اختتام پذیر بھی ہو جائے گا۔
یہ بات پی ڈی ایم کے قائدین کو بھی پتہ ہے کہ اگر یہ جلسہ پرانے تمام جلسوں کے ریکارڈ توڑ بھی دے (جس کا امکان کم ہے) تو پھر بھی اس سے پی ڈی ایم کے ہدف یعنی حکومت کے جانے کا کوئی امکان نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ حکومت سڑکوں پر پکڑ دھکڑ سے گرما گرمی ضرور پیدا کر رہی ہے مگر اس کے باوجود جلسے کے اگلے دن حالات معمول کے مطابق ہی ہوں گے۔
اس لیے پی ڈی ایم کو اگلے راستے سوچنے تو ہیں اور راستے ہیں صرف دو۔ استعفے اور لانگ مارچ۔
لانگ مارچ کی سیاست پاکستان میں پرانی ہے۔ نوے کی دہائی مارچوں کی دہائی رہی ہے اور پھر ججوں کی بحالی کے لیے میاں نواز شریف کے مارچ سے لے کر کچھ عرصہ پہلے تک مولانا فضل الرحمان کے مارچ تک، تاریخ کا حصہ ہیں۔ استعفوں کی روایت نسبتاً نئی ہے اور اس روایت کے موجد ہیں عمران خان اور تحریک انصاف۔
سنہ 2014  کا آزادی مارچ معمول کا مارچ ہوتا اگر اس کے ساتھ قومی اسمبلی سے استعفے نہ ہوتے۔ سنہ 1985 سے سیاسی جماعتوں میں یہ سوچ رہی ہے کہ کچھ بھی ہوجائے سیاسی بقا کے لیے ایوان میں نمائندگی رہنی چاہیے۔
اس لیے چند سیٹیں ہی سہی، جماعتیں اپنی نمائندگی پارلیمان میں برقرار رکھتی ہیں۔ عمران خان نے یہ سیایسی رسک لے کر اجتجاجی سیاست کو ایک نیا رخ دے دیا حتیٰ کہ ن لیگ کے سپیکر کو ان کےاستعفے روکنے پڑے۔
اگرچہ اس وقت پی ٹی آئی آل آؤٹ بہر حال نہیں گئی اور کے پی میں اپنی حکومت برقرار رکھی مگر قومی اسمبلی سے استعفے بہر حال ایک فیصلہ کن قدم، ایک کھلا چیلنج اور آخری الٹی میٹم کے طور پر سامنے آئے۔
اب استعفوں کی گیند پی ڈی ایم کے کورٹ میں ہے۔ مولانا فضل الرحمان پہلے دن سے استعفوں  کے داعی ہیں مگر ان کو پاس چھوڑنے کے لیے چند سیٹیں ہی ہیں۔ ان کا استعفوں پر اصرار حیران کن ہے نہ فیصلہ کن۔ اصل فیصلہ ہے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا۔ ن لیگ کا یہ فیصلہ بھی ن لیگ کے سیاسی رخ اور ن لیگ میں موجود سیاسی دھڑوں سے جڑا ہوا ہے۔

پی ڈی ایم کا اگلا جلسہ لاہور میں منعقد ہوگا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

وہی دھڑا اور اس کے اراکین جو اداروں سے تصادم کے حق میں نہیں وہ استعفوں کے بھی حق میں نہیں ہوں گے۔ جبکہ مریم نواز جو اسمبلی میں بھی نہیں اور مکمل جارح موڈ میں ہیں، وہ استعفوں سے بھی بات آگے لے جانا چاہیں گی۔
ن لیگ کی حد تک قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے استعفوں میں تخصیص بھی نہیں ہو گی کیونکہ وہ دونوں جگہ اپوزیشن میں ہی ہیں۔ خبر بہر حال یہ ہے کہ اس ضمن میں  حتمی فیصلے سے ن لیگ کی اعلی قیادت بھی بے خبر اور لندن سے نواز شریف کے فیصلے کے انتظار بلکہ خوف میں ہے۔
پیپلز پارٹی کا معاملہ ن لیگ سے مختلف اور کچھ واضح ہے اور وہ یہ ہے استعفوں سے بچت ہی ہو جائے تو بہتر ہے۔
مصالحت کی سیاست پیپلز پارٹی کا اوڑھنا بچھونا ہے اس لیے ہر وقت کسی نہ کسی ڈیل کا آپشن بھی کھلا رہتا ہے۔ اگر نوبت آئے گی بھی تو صوبائی حکومت سے استعفوں کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔
پیپلز پارٹی کی خواہشات بھی ن لیگ کے مقابلے میں سادہ ہیں اور وہ ہیں نیب کیسز میں سہولت اور اٹھارویں ترمیم کا تحفظ۔
ن لیگ کی نظر البتہ  مستقل تخت لاہور پہ بھی رہتی اور تخت اسلام آباد پہ بھی۔ پیپلز پارٹی استعفوں کو دھمکی کے طور پر تو استعمال کرنا چاہے گی مگر اس پر عمل کرنے سے بچنا ہی چاہے گی۔

پیپلز پارٹی اٹھارویں ترمیم کا تحفظ چاہتی ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

آخر میں استعفوں کا فیصلہ بذات خود حکومت کے جانے  کا سبب نہیں بن سکتا۔ اگر بالفرض پی ڈی ایم نے استعفے دے بھی دیے تو حکومت کے پاس وہی دو آپشن ہیں جو ن لیگ کے پاس 2014 میں تھے۔ سپیکر استعفے روک لے یا نئے الیکشن۔
اگر سپیکر اپنے پاس روک لے تو بات پھر وہیں رک جائے گی۔ مگر پی ٹی آئی قائدین کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ ان سیٹوں پر نیا الیکشن کروا دیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو ن لیگ اور پی ڈی ایم کے پاس سٹریٹ ایجی ٹیشن اور الیکشن کو سبوتاژ کرنے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں ہو گا۔
سوال یہ ہے کہ کیا پی ڈی ایم اس کے لیے تیار ہے؟ کیونکہ استعفے دے کے گھر بیٹھنا تو بے سود ہو گا۔ پھر تو ایک بھرپور اور آخری حد تک جانے والی عوامی تحریک ہی ان کے لیے واحد حل ہو گی۔ کیا ان کے پاس ایسی طاقت یا ارادہ ہے؟ جواب اس کا نفی میں ہی ہے مگر استعفوں کی دھمکی ضرور دی جاتی رہے گی۔‘

شیئر:

متعلقہ خبریں