Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

 لغویات کا ناٹک

مریم نواز کے پاس کھونے کو کچھ نہیں اس لیے ان کا طرز عمل اور اپروچ جارحیت اور غصے پر مبنی ہے (فوٹو: ٹوئٹر)
انگریزی زبان میں Theater of the Absurd یعنی ’لغویات کا ناٹک‘ یا مضحکہ خیز تماشے کی اصطلاح عام ہے۔ کبھی کبھی تو گمان ہونے لگتا ہے کہ یہ اصطلاح ہماری ریاست کے کرداروں کو ذہن میں رکھ کر ترتیب دی گئی ہے۔
اس کھیل کے سب کردار ایک ایسے وقت میں اپنا اپنا راگ الاپ رہے ہیں جب کھیل دیکھنے والوں کو خود زندگی اور موت کا مسئلہ لاحق ہے۔ یہ مسئلہ ہے کورونا کی وبا کا اور کردار ہیں ہماری سیاسی جماعتیں۔ 
سب سے پہلے پیپلز پارٹی کو لے لیجیے۔ سخت لفظ سہی مگر پی پی پی کے طرز عمل کو منافقت کےعلاوہ کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا۔ یہ منافقت ذاتی بھی ہے اور سیاسی بھی۔
ذاتی طور پر پی پی پی قیادت کی گھریلو تقریبات میں محدود شرکت اور شدید احتیاط جب کہ سیاسی جلسوں میں عوام کی بھرپور آمد اسی تضاد کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
سیاسی طور پر پی پی پی اپنی صوبائی حکومت میں لاک ڈاؤن اور اجتماعات پر پابندی کی سب سے بڑی علمبردار کے طور پر سامنے آئی۔ اب البتہ وہ سارے اصول سیاسی مفادات کے لیے ہوا ہوئے۔ اس کو منافقت کے علاوہ کیا کہا جائے؟ 
ن لیگ کی سیاست البتہ واضح ہے جس کا فی الحال فیصلہ مریم نواز کے ہاتھ میں ہے۔ ان کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں اس لیے ان کا طرز عمل اور اپروچ جارحیت اور غصے پر مبنی ہے۔ مگر اسی جارحیت کا اظہار ہو رہا ہے غفلت، لا پرواہی اور بے حسی میں۔

’اپوزیشن کی منافقت اور بے حسی کا جواب اگر طاقت سے دیا گیا تو حالات کی خرابی کا ذمہ بھی حکومت کے سر ہوگا۔‘ (فوٹو: ٹوئٹر

ایک عرصے تک نواز شریف کی لندن روانگی کے بعد مریم نواز نے سیایست سے بریک لیے رکھی تھی۔ اس وقت نہ سلیکٹڈ نہ سلیکٹرز کا خیال آیا مگر اب وہ مصِر ہیں کہ عوام تمام احتیاطیں بالائے طاق رکھیں اور سڑکوں، چوراہوں اور میدانوں میں اکھٹے ہو جائیں اور ووٹ کو عزت دے کر ہی واپس جائیں۔ اس دوران کورونا کی جو صورتحال ہو گی اس کی پرواہ دور دور تک نظر نہیں آتی۔
خبروں میں ان رہنے کے لیے وہ اپنے بزرگوں کی وفات کی خبر وقت پر نہ ملنے کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہراتی ہیں اور کبھی جیل اور چوہوں کی بچی ہوئی خوراک کا تذکرہ کرتی ہیں۔ نواز شریف کی عدم واپسی کے ایسے بودے جواز پر حکومت کو کھل کر شاٹس کھیلنے کا موقع بھی خوب ملتا ہے مگر مریم بی بی ہرحالت میں تصادم اور تنازع کو زندہ رکھنا چاہتی ہیں۔ لوگوں کو اس ماحول میں اکٹھا کرنے اور کورونا کے پھیلاؤ میں ن لیگ کی مجرمانہ غفلت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ 
بات اگر حالات خراب کرنے کی ہو اور حکومت کی نااہلی، نادانی اور ناتجربہ کاری کا ذکر نہ ہو یہ ممکن نہیں۔ کوئٹہ، پشاور  اور سوات میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت ہے مگر وہاں جلسے بزور طاقت نہیں روکے گئے۔

ن لیگ کی سیاست البتہ واضح ہے جس کا فی الحال فیصلہ مریم نواز کے ہاتھ میں ہے (فوٹو:ٹوئٹر)

پنجاب میں البتہ بزدار سرکار کی امیچورٹی عیاں ہے۔ گوجرانوالہ میں ہلکی پھلکی رکاوٹیں لگائی گئیں مگر ملتان میں بھرپور طاقت کا استعمال جاری ہے۔ واضح طور پر یہ 13 دسمبر کو لاہور جلسے کو روکنے کا ٹریلر ہے۔ اگر ملتان جلسے کو کھل کر ہونے دیا جاتا تو لاہور میں رکاوٹ کا جواز نہ رہتا۔
اب حکومت نے اپنی پالیسی واضح کر دی ہے کہ پنجاب میں پی ڈی ایم یا ن لیگ کے جلسے نہیں ہونے دیے جائیں گے۔ اس کا بظاہر نتیجہ تصادم ہے۔ ملتان میں اس تصادم کا لیول کم ہے مگر اگر لاہورمیں ن لیگ کی عاقبت نااندیشی کا مقابلہ حکومت کی نااہلی سے ہوا تو اس کا انجام خطرناک بھی ہوسکتا ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ اس ماحول میں ٹھراؤ، سنجیدگی اور میچیورٹی کا مظاہرہ کرے۔ اپوزیشن کی منافقت اور بے حسی کا جواب اگر طاقت سے دیا گیا تو حالات کی خرابی کا ذمہ بھی حکومت کے سر ہوگا۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ اس ماحول میں ٹھراؤ، سنجیدگی اور میچیورٹی کا مظاہرہ کرے (فوٹو: ٹوئٹر)

دوسری طرف اپوزیشن کے جلسوں میں کوئی خاص جوش وخروش اور اثر بھی نظر نہیں آ رہا۔ مزید جلسے اپوزیشن کو ایکسپوز ہی کریں گے، سیاسی طور پر بھی اور اخلاقی طور بھی۔
سیاسی طور پرعوام کی محدود شرکت سے اور اخلاقی طور پر کورونا پر بے حسی اور غفلت سے مگر حکومت میں سمجھداری اور تجربہ کاری کی اتنی ہی کمی ہے جتنے اپوزیشن میں احساس اور ذمہ داری کی۔ 
اب تو صرف امید ہی ہے کہ منافقت، غفلت اور نا اہلی کے اس کھیل میں کم سے کم نقصان ہو۔

شیئر:

متعلقہ خبریں