Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسامہ کے سابق ترجمان کی امریکہ سے رہائی کے بعد برطانیہ واپسی

عادل عبدالباری لندن میں اپنے خاندان کے ساتھ قیام کریں گے (فوٹو: روئٹرز)
اسامہ بن لادن کے ایک سابق ترجمان عادل عبدالباری امریکہ میں رہائی کے بعد واپس برطانیہ پہنچ گئے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق 60 برس کے عادل عبدالباری کو نیویارک کی ایک عدالت نے اس لیے رہا کیا کہ موٹاپے اور دمہ کے عارضے کی وجہ سے ان کو کورونا وائرس کا خطرہ ہے۔
عادل عبدالباری کا تعلق مصر سے ہیں۔ ان کو برطانوی پولیس نے کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں پر حملوں کی سازش میں معاونت کرنے کے الزام میں 1999 میں گرفتار کیا تھا۔
یہ حملے 1998 کو ہوئے تھے۔ ان میں 224 افراد ہلاک جبکہ پانچ ہزار زخمی ہوئے تھے۔
ان پر 285 مختلف الزامات کے تحت مقدمہ چلایا گیا تاہم انہوں نے چند چارجز کو تسلیم کیا تھا۔ ان میں بیرون ملک امریکی شہریوں کے قتل کی سازش اور انہیں بارودی مواد کے ذریعے قتل کرنے کی دھمکیاں بھی شامل ہیں۔
انہوں نے مین ہٹن کی عدالت میں یہ تسلیم کیا کہ لندن میں رہتے ہوئے انہوں نے صحافیوں کے پیغامات اسامہ بن لادن کو بھیجے اور میڈیا کو اس بات کی تصدیق بھی کی کہ القاعدہ سفارت خانے پر حملوں کی ذمہ دار تھی۔

القاعدہ نے 1998 میں کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں پر حملے کیے تھے (فوٹو: اے ایف پی)

اکتوبر میں عادل عبدالباری نے 25 سال کی سزا میں سے 21 سال کی سزا مکمل کی جس کے بعد امریکی حکام نے ان کی رہائی کی منظوری دی۔
عادل عبدالباری اپنی اہلیہ کے ساتھ لندن میں رہیں گے۔ برطانیہ میں ان کی واپسی اس لیے نہیں روکی جا سکتی کہ 1997 میں ان کو پناہ ملی تھی۔
وہ اپنے آبائی ملک مصر بھی واپس نہیں جا سکتے کیونکہ برطانوی میڈیا کے مطابق ان کو وہاں تشدد اور ہلاکت کے خطرے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

امریکی سفارت خانوں پر حملوں میں 224 افراد ہلاک جبکہ پانچ ہزار زخمی ہوئے تھے (فوٹو: اے ایف پی)

عادل عبدالباری نے 1997 میں اپنا ملک چھوڑا تھا۔
ان کے وکیل نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ ’ ان سارے واقعات کے بعد مسٹر باری چاہتے ہیں کہ اپنے اہلخانہ کے ساتھ زندگی گزاریں۔‘
ان کو برطانیہ کے انسداد دہشت گردی کے واچ لسٹ میں شامل نہیں کیا جائے گا کیونکہ وہ سزا مکمل کر چکے ہیں۔

شیئر: