Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا میں فیس بُک تنازعے کا شکار

ماہرین کے مطابق فیس بک وہرے معیار کو اپنانے کا مرتکب رہا ہے (فوٹو: روئٹرز)
معروف سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک انڈیا میں ایک بار پھر تنازعے کا شکار نظر آتا ہے کیونکہ ملک کی حکمران جماعت اور اس سے منسلک جماعتوں کے رہنماؤں کی نفرت انگیزیوں کو نظر انداز کرنے کے اس پر الزامات لگائے گئے ہیں۔
انڈیا میں حزب اختلاف کی جماعت کانگریس پارٹی نے حکمران جماعت بی جے پی پر فیس بک اور واٹس ایپ پر کنٹرول کرنے کے الزامات لگائے ہیں جبکہ ایک آر ٹی آئی ایکٹیوسٹ نے فیس بک اور الیکشن کمیشن کے رشتے پر بھی سوال اٹھایا ہے۔

 

فیس بک اور انڈیا کی حکمران جماعت دونوں نے ان الزمات کو مسترد کر دیا ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ فیس بک اپنی پالیسیوں کے نفاذ میں دوہرے معیار کو اپنانے کا مرتکب رہا ہے اور فیس بک نے بھی یہ تسلیم کیا ہے کہ اس ضمن میں ابھی بہت کچھ کیا جانا ہے۔
کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا: 'بی جے پی اور آر ایس ایس انڈیا میں فیس بک اور واٹس ایپ کو کنٹرول کرتے ہیں۔ ان ذرائع سے وہ جھوٹی خبریں اور نفرت پھیلا کر ووٹروں کو پھسلاتے ہیں۔ آخر کار امریکی میڈیا فیس بک کا سچ سامنے لے آیا۔'
در اصل یہ سارا تنازع امریکی اخبار دی وال سٹریٹ جرنل کے ایک مضمون کا شاخسانہ ہے۔ اس میں بات انڈیا کی جنوبی ریاست تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے بی جے پی کے رکن اسمبلی ٹی راجا سے شروع کی گئی ہے جو اخبار کے مطابق فیس بک پر اور عوام کے سامنے یہ کہتے نظر آئے کہ روہنگیا مسلمان کو گولی مار دینی چاہیے، انھوں نے مسلمانوں کو غدار کہا اور مسجد کو زمین بوس کرنے کی دھمکی دی۔
فیس بک کے کارکنوں سے اس طرح کی نفرت انگیزیوں اور شر انگیزیوں کو اپنے پلیٹ فارم سے ہٹانے کی توقع کی جاتی ہے کیونکہ وہ ایسا دعویٰ کرتی ہے لیکن ٹی راجا کے علاوہ انڈیا کے بہت سے معاملے میں ایسا نہیں دیکھا گیا ہے۔
رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ اتنے سنگین اور حساس قسم کی پوسٹس ہیں کہ اس رہنما پر دنیا بھر کے تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی لگا دینی چاہیے لیکن ان کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔ بہر حال اب اس پوسٹ کو ہٹا لیا گیا ہے۔
اس مضمون میں انکھی داس نامی ایک خاتون پر الزام لگایا گیا ہے کہ انھوں نے بہت سی معلومات کو دانستہ طور پر دبا دیا۔ انکھی داس اکتوبر سنہ 2011 سے فیس بک کے لیے کام کر رہی ہیں اور وہ انڈیا میں فیس بک کمپنی کی پبلک پالیسی کی سربراہ ہیں۔

کانگریس نے بی جے پی پر فیس بک اور واٹس ایپ کنٹرول کرنے کے الزامات لگائے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

اس سے قبل وہ مائیکروسافٹ سے منسلک تھیں اور انھوں نے دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے جہاں وہ بی جے پی کی طلبہ ونگ اے بی وی پی سے مبینہ طور پر جڑی ہوئی تھیں لیکن ان کا تعلق انڈیا کی مشرقی ریاست مغربی بنگال سے ہے۔
انکھی پر یہ الزامات بھی ہیں کہ انھوں نے سنہ 2019 کے پارلیمانی انتخابات سے قبل بی جے پی کے جعلی اکاؤنٹس اور پیجز سے متعلق معلومات چھپائیں کہ انھیں ڈیلیٹ کیا گیا ہے۔
امریکی اخبار میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کمپنی نے اپنے اقتصادی مفادات کے تحت حکمران جماعت کے رہنماؤں کی نفرت انگیز تقاریر کو نہیں ہٹایا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فیس بک کے ملازمین نے اخبار کو بتایا کہ انکھی داس نے حکمران جماعت کے رہنماؤں کے رہنماؤں کی نفرت انگیز تقاریر پر فیس بک کے اصول کو نافذ کرنے کی مخالفت کی تھی۔
دوسری جانب میڈیا رپورٹس کے مطابق  گذشتہ روز انکھی داس نے دارالحکومت دہلی میں شکایت درج کی ہے کہ انھیں انٹرنیٹ پر جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
کانگریس پارٹی نے امریکی اخبار کے انکشاف کے بعد اس معاملے میں ایک مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ اپنی ٹویٹ میں کانگریس نے لکھا: 'اس معاملے میں جے پی سی تحقیقات کی ضرورت ہے۔  گلوبل فیس بک کو سرگرمی کے ساتھ اس معاملے میں تحقیقات کرنی چاہییں اور اپنے نظام میں کمی کو تلاش کرنا چاہیے اور جہاں تک انڈیا کا تعلق ہے تو دائیں بازو والے، فیس بک اور واٹس ایپ کیونکر ایک ساتھ ہو گئے۔'
سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے گرما گرم بحث جاری ہے۔ انڈیا میں ایک اندازے کے مطابق فیس بک کے 40 کروڑ صارفین ہیں جبکہ اس سے کہیں زیادہ واٹس ایپ کی خدمات حاصل کرنے والے ہیں۔
اخبار ممبئی مرر کے مطابق آر ٹی آئی ایکٹیوسٹ ساکیت گوکھلے نے پیر کے روز سنہ 2017 میں انڈیا کے الیکشن کمیشن کی جانب سے ووٹر بیداری مہم کے لیے سوشل میڈیا کی بڑی کمپنی فیس بک کے ساتھ معاہدے پر سوال اٹھایا ہے۔ انھوں نے مستقل کئی ٹویٹس میں کہا کہ اس مہم کو چیف الیکشن کمشنر نسیم زیدی کے ساتھ فیس بک کی انکھی داس نے لانچ کیا تھا۔
اخبار کے مطابق گوکھلے نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ 23 مارچ سنہ 2018 کو ای سی آئی نے اعلان کیا کہ وہ فیس بک کے ساتھ اپنی شراکت پر نظر ثانی کر رہا ہے کیونکہ ڈیٹا کی خلاف ورزی کے خدشات ہیں جس سے صاف شفاف اور آزادانہ انتخابات متاثر ہو سکتے ہیں۔ انھوں نے مزید لکھا کہ اس کے چار دن بعد یہ معاہدہ پھر سے جاری ہو گیا اور فیس بک کو کلین چٹ دیے جانے سے متعلق کوئی وضاحت نہیں دی گئی۔

شیئر: