Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خفیہ ووٹنگ کے متبادل شو آف ہینڈز کا کیا مطلب اور یہ ہو گا کیسے؟

حکومت نے آنے والے سینیٹ انتخابات ’شو آف ہینڈز‘ کے ذریعے کرانے کا فیصلہ کیا ہے (فوٹو: روئٹرز)
پاکستان کی وفاقی حکومت نے ایوان بالا سینیٹ کے انتخابات کا طریقہ تبدیل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ شو آف ہینڈز کے ذریعے انتخابات کروائے گی۔
 اس حوالے سے متعلقہ قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کیا جائے گا۔
پاکستان کے آئین اور الیکشن قواعد کے تحت سینیٹ کا الیکٹورل کالج چاروں صوبائی اسمبلیاں اور قومی اسمبلی ہے۔
سابق سیکرٹری سینیٹ افتخاراللہ بابر نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’شو آف ہینڈز کے ذریعے ووٹنگ کے لیے لازم ہے کہ حکومت پہلے آئینی ترمیم کرے۔ الیکشن رولز میں تبدیلی لائے اور اس کے بعد ووٹنگ کرائے۔‘
ان کے مطابق سمجھ نہیں آتی کہ حکومتی آئینی ترمیم کے لیے سپریم کورٹ سے مشورے کے آپشن پر کیوں غور کر رہی ہے۔ ’آخر کار سپریم کورٹ نے بھی قانون سازی ہی کی تجویز دینی ہے۔‘

ماہرین کے مطابق مطابق 10 فروری سے 10 مارچ کے دوران سینیٹ انتخابات کسی بھی وقت کروائے جا سکتے ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

انھوں نے کہا ’شو آف ہینڈز کے ذریعے انتخابات کا طریقہ جو سمجھ آتا ہے اس کے مطابق جس طرح آئین سازی کے ذریعے ایک ایک ترمیم پر ووٹنگ کرائی جاتی ہے اسی طرح ہر امیدوار کا نام پکارا جائے گا اور جو اکثریتی ووٹ لے گا وہی کامیاب ہوگا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ انتہائی تکنیکی مسئلہ ہے جس کے لیے بہت غور و فکر کی ضرورت ہے تاکہ کوئی بھی جماعت صوبائی اسمبلی میں اپنی نمائندگی کے مطابق سینیٹ میں نمائندگی حاصل کرنے میں کامیاب ہو۔‘
’اس کے لیے ووٹنگ پولز بھی بنائے جا سکتے ہیں جس طرح ہر اسمبلی میں جماعتیں اپنے ارکان کو تقسیم کرکے ان کو کسی ایک امیدوار کو ووٹ دینے کی پابند بنا دیتی تھیں۔ اب بھی ترمیم کے ذریعے ایسے پولز بنائے جا سکتے ہیں اور پھر ان پولز کے لیے متعلقہ امیدوار کے لیے شو آف ہیںڈز کے ذریعے ووٹ لیے جائیں گے۔‘
خیال رہے کہ متناسب نمائندگی کے اصول کے تحت چاروں صوبائی اسمبلیوں سے برابر کی تعداد میں سینیٹر منتخب ہو کر آتے ہیں جن میں جنرل، ٹیکنوکریٹ ، اقلیتی اور خواتین کی نشستیں بھی شامل جبکہ وفاقی دارالحکومت سے چار سینیٹرز کا انتخاب قومی اسمبلی سے خفیہ ووٹنگ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
سینیٹ انتخابات کا طریقہ کار انتہائی پیچیدہ ہے جس کے لیے پنجاب اسمبلی سے کسی بھی امیدوار کو جیتنے کے لیے 47، سندھ اسمبلی سے 21، خیبر پختونخواہ سے 16 اور بلوچستان سے نو ووٹ لینا ہوتے ہیں۔ یعنی ہر صوبائی اسمبلی کے اتنے ارکان مل کر ایک ایک سینیٹر کا انتخاب کرتے ہیں اور کسی بھی امیدوار کو مطلوبہ ووٹوں سے زیادہ ملنے والے ووٹ پارٹی کے اگلی ترجیحی امیدوار کو منتقل ہو جاتے ہیں۔
اسی طریقہ کار کا فائدہ اٹھا کر ہی امیدواروں کو خریدنے کی شکایات ہر الیکشن میں سامنے آتی ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے نومبر میں اپوزیشن سے کہا تھا کہ حکومت شو آف ہینڈ کے ذریعے سینیٹ انتخابات کروانا چاہتی ہے۔
پارلیمنٹ میں حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں اس لیے اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ اس کے لیے حکومت کے ساتھ تعاون کرے تاکہ ہارس ٹریڈنگ کا خاتمہ ہو۔
ملکی سیاسی ماحول کی وجہ سے ابھی تک حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اس معاملے پر کسی قسم کا رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے نومبر میں اپوزیشن سے کہا تھا کہ حکومت شو آف ہینڈ کے ذریعے سینیٹ انتخابات کروانا چاہتی ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کہتے ہیں ’صدر کی جانب سے ایک ریفرنس سپریم کورٹ جائے گا جس کی روشنی میں سپریم کورٹ ہدایت جاری کر دے گی کہ پارلیمنٹ اس سلسلے میں قانون سازی کرے۔ اس ہدایت کی روشنی میں آئینی ترمیم لے آئے گی۔‘
انھوں نے کہا ’اس سے قبل چیف الیکشن کمیشن کی تقرری کے وقت بھی اسلام آباد ہائی کورٹ نے پارلیمنٹ کو ہدایت کی تھی کہ وہ ایک ہفتے میں چیف الیکشن کمیشن کی تقرری کا فیصلہ کرلیں جس کے بعد معاملہ جلد حل ہوگیا تھا۔‘
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا ’سپریم کورٹ کی ہدایت کے بعد بھی اپوزیشن کی مرضی ہے کہ وہ قانون سازی میں حکومت کے ساتھ شو آف ہینڈز کا قانون پاس کرنے میں تعاون کرے یا نہ کرے۔ سپریم کورٹ کسی جماعت کو کسی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے کی ہدایت نہیں کر سکتی۔‘
آئینی و سیاسی ماہرین کے مطابق سینیٹ انتخابات فروری میں کروانا کوئی بہت بڑی سیاسی چال نہیں ہے بلکہ آئین کے مطابق 10 فروری سے 10 مارچ کے دوران سینیٹ انتخابات کسی بھی وقت کروائے جا سکتے ہیں۔

شیئر: