Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکومت کی مذاکرات کی دعوت اپوزیشن کو تقسیم کرنے کی کوشش ہے؟

پی ڈی ایم کا اہم اجلاس اپوزیشن کی مشترکہ حکمت عملی پر غور کے لیے یکم جنوری کو جاتی امرا میں ہوگا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
حکومت نے اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کے علاوہ اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دی ہے۔
تاہم اپوزیشن اتحاد کی دو نمایاں ترین شخصیات کو باہر رکھ کرکیے گئے مذاکرات کیا  ملک میں سیاسی محاز آرائی کے خاتمے کے لیے نتیجہ خیز ہو سکتے ہیں یا پھر یہ حکومت کی جانب سے پاکستان پیپلز پارٹی کو پی ڈی ایم سے دور کرنے کی کوشش ہے؟
سینیئر سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق ظاہر ہے یہ حکومت کی کوشش ہے کہ پی ڈی ایم میں دو گروپس پیدا کیے جائیں ایک مصالحتی اور ایک مزاحمتی۔ ’تاہم اپوزیشن بھی اس حکمت عملی کو سمجھتی ہے اور کسی قسم کے مذاکرات کا فائدہ بھی تب ہی ہو گا جب اصلی اپوزیشن سے بات چیت کی جائے۔‘
یاد رہے کہ سوموار کو وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے دیگر کابینہ ارکان کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ  پارلیمنٹ ہی اصل فورم ہے جہاں عوامی مسائل پر بات ہوتی ہے۔ ’مولانا فضل الرحمان اور مریم نواز پارلیمنٹ میں نہیں ہیں اس لیے حکومت ان سے بات نہیں کر سکتی مگر پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کے سنجیدہ لوگوں کے ساتھ مذاکرات سے اتفاق رائے ہو جائے گا۔‘
تاہم سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن اگر پارلیمنٹ میں نہیں بھی ہیں تو ان کی جماعتیں تو پارلیمان کا حصہ ہیں اور ان کی جماعتیں ان ہی کے فیصلوں پر عمل درآمد کرتی ہیں اس لیے مذاکرات میں ان کی شمولیت لازم ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی جب بھی سیاسی مذاکرات ہوئے تو اس میں پارلیمنٹ سے باہر  اور اندر دونوں طرح کے سیاسی لوگوں سے بات چیت کی گئی ۔

حکومت کے بیان سے اپوزیشن تقسیم نہیں ہو گی

سیاسی تجزیہ کار اور سابق نگران وزیراعلی پنجاب پروفیسر حسن عسکری کا کہنا ہے کہ حکومت نے واضح کیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے فریم ورک کے اندر اپوزیشن سے مذاکرات چاہتی ہے اور ظاہر ہے مولانا فضل الرحمن اور مریم نواز پارلیمنٹ کا حصہ نہیں تو وہ بات چیت میں شریک نہیں ہو سکتے۔

حسن عسکری کے مطابق  حکومت نے واضح کیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے فریم ورک کے اندر اپوزیشن سے مذاکرات چاہتی ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

تاہم اس سوال پر کہ کیا اس طرح کے بیان سے حکومت اپوزیشن میں دراڈ ڈالنا چاہتی ہے پروفیسر عسکری کا کہنا تھا کہ اس بیان سے اپوزیشن تقیسم نہیں ہو گی لیکن اپوزیشن کی تقیسم آگے جا کر اصل مسائل پر ہوگی جن میں سینٹ انتخابات میں شرکت اور اسمبلیوں سے استعفے شامل ہیں۔
اس سوال پر کہ کیا حکومت کی یہ سیاسی حکمت عملی ہو سکتی ہے کہ اپوزیشن اتحاد کو نقصان پہنچے ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی اپنی حکمت عملی ہوتی ہےاور اپوزیشن کی بھی اپنی حکمت عملی ہوتی ہے۔ ’ظاہر ہے حکومت اور اپوزیشن کی سوچ میں فرق ہے۔‘
یاد رہے کہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی برسی کی تقریب میں پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق صدر آصف زرداری نے بھی چند ایسی باتیں کی تھیں جس سے اپوزیشن کی حکمت عملی پر اختلاف کا عندیہ ملتا ہے۔
پی ڈی ایم کا اہم اجلاس اپوزیشن کی مشترکہ حکمت عملی پر غور کے لیے یکم جنوری کو جاتی امرا میں ہو گا جس میں اتحاد میں شامل جماعتیں اسمبلیوں سے مستعفی ہونے اور سینٹ الیکشن میں شریک ہونے کے حوالے سے اپنا اپنا موقف پیش کریں گی اور مستقبل کا لائحہ عمل بھی زیر غور آئے گا۔

شیئر: