Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سال نو کا جشن منائیں تو یاد رکھیے گا کہ۔۔۔

کورونا آیا تو لاکھوں کی تعداد میں غریب لوگ اپنے گھروں کو لوٹنے کے لیے سڑکوں پر نکل پڑے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
جب آپ سال نو کا جشن منا رہے ہوں تو دو تین باتیں ضرور یاد رکھیے گا۔ دلی کی سرحدوں پر اب بھی ہزاروں کسان اس امید میں خیمہ زن ہیں کہ کبھی نہ کبھی تو اقتدار کے ایوانوں تک ان کی آواز پہنچے گی۔ ان میں بوڑھے، بچے اور جوان، مرد اور عورتیں سب شامل ہیں۔
زیادہ تر کو دھرنے پر بیٹھے ہوئے اتنے دن ہوگئے ہیں کہ شاید یہ بھی یاد نہ ہو کہ وہ کیوں احتجاج کر رہے ہیں۔
لیکن کیا کریں، جمہوریت ہے، سب کو آواز اٹھانے اور حکومت کو اپنی ناراضگی سے آگاہ کرانے کا حق حاصل ہے۔ اس لیے جسے جہاں بیٹھنا ہے، بیٹھا رہنے دیجیے۔ انہیں لگتا ہے کہ حکومت نئے قوانین بنا کر کسانوں کا مستقبل برباد کر رہی ہے، حکومت کو لگتا ہے کہ کسان بے وجہ اپنا وقت برباد کر رہے ہیں کیونکہ حکومتیں تو صرف لوگوں کی بہتری کے لیے ہی کام کرتی ہیں۔
اگر یہ واقعی سچ ہے تو بے وقوف کسان کیوں سرد راتوں میں سڑکوں پر پڑے ہیں؟ یہ بہت آسان سوال ہے، بس اس کا جواب مشکل ہے۔ لیکن حکومت تو سب جانتی ہے اور سب کو بتا بھی رہی ہے۔ ان لوگوں کو حزب اختلاف کی جماعتیں گمراہ کر رہی ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے سال کے اوائل میں مسلمانوں کو کر رہی تھیں۔
آپ شاید بھول گئے ہوں لیکن وہ عورتیں نہیں بھولی ہوں گی جنہوں نے پچھلی سردی کسانوں کی طرح ہی سڑکوں پر بیٹھ کر گزاری تھی۔ وہ بھی اتنے دن سڑکوں پر بیٹھیں کہ شاید بھول گئی ہوں گی کہ گھر سے کیوں نکلی تھیں؟ لیکن پھر سوچا ہوگا کہ عورتیں یوں بے وجہ تو گھر سے نکلتی نہیں ہیں، اس لیے بیٹھے رہتے ہیں، دیر سویر یاد آہی جائے گا کہ کس بات کے خلاف احتجاج شروع کیا تھا۔
لیکن ہمیں یاد ہے۔ انہیں فکر تھی کہ بی جے پی کی حکومت انہیں ان کی شہریت سے محروم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس وقت بھی حکمرانوں نے کہا تھا کہ یہ لوگ بے وجہ اپنا وقت برباد کر رہے ہیں۔ کسی کی شہریت نہیں جائے گی، بس حزب اختلاف کی جماعتیں انہیں گمراہ کر رہی ہیں۔
پھر انہیں سڑکوں سے اٹھنا پڑا کیونکہ گھر لوٹ کر تھالیاں جو بجانی تھیں، کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے۔ کورونا آیا تو لاکھوں کی تعداد میں غریب لوگ اپنے گھروں کو لوٹنے کے لیے سڑکوں پر نکل پڑے۔ لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا تو سوا ارب لوگ اپنے گھروں میں محصور ہوگئے۔ لیکن لاکھوں ایسے بھی تھے جن کی سیر و تفریح کی ضرورت کبھی ختم نہیں ہوتی۔

کسانوں کے مطابق حکومت نئے قوانین بنا کر ان کا مستقبل برباد کر رہی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کام کاج کیا بند ہوا، بس پیدل ہی سینکڑوں کلومیٹر دور اپنے گھروں کو نکل پڑے۔ وہ بھی چلچلاتی گرمی میں، نہ پانی کا انتظام اور نہ کھانے کا۔ اور راستے میں یہ کہہ رہے تھے کہ اگر بھوک سے ہی مرنا ہے تو اپنے گھر ہی جاکر مرنا چاہتے ہیں۔ یہاں ہمارا کون پرسان حال ہے؟
ان غریب لوگوں کی درد بھری داستانوں کی گونج دنیا بھر میں سنی گئی۔ ملک کی تقسیم کے بعد ایسے مناظر پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے تھے۔ جگہ جگہ ناکہ بندی کی گئی اور ان لوگوں کو ان کی بہتری کے لیے خصوصی مراکز میں منتقل کردیا گیا تاکہ وہ پورے ملک میں کوروناوائرس نہ پھیلا دیں۔
اور ہمیشہ کی طرح اپوزیشن سیاست کرتی رہی۔ اور لوگ یہ سوچتے رہے کہ یہ لوگ جب حزب اختلاف کی جماعتوں کی باتوں میں آکر اتنی آسانی سے گمراہ ہو جاتے ہیں، کبھی خود سڑک پر بیٹھتے ہیں تو کبھی اپنی عورتوں کو بٹھا دیتے ہیں، یا کم سے کم انہیں بیٹھنے دیتے ہیں، تو انہیں ووٹ کیوں نہیں دیتے؟ ( بات ذرا غیر معیاری لگتی ہے لیکن یہ تو ماننا ہی پڑے گا کہ عورتوں کے حقوق کی راہ میں بھلے ہی ترقی ہوئی ہو لیکن اب بھی جنوب ایشیا میں ایسی کتنی عورتیں ہیں جو واقعی اپنی مرضی سے جو چاہیں کر سکتی ہیں؟)

بی جے پی کے مطابق کسانوں کو اپوزیشن جماعتیں گمراہ کر رہی ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

اور ہاں عورتوں کا ذکر آیا تو ’لو جہاد‘ کا بھی ذکر کرتے چلیں۔ نئے سال کے عزائم کی فہرست میں بس دھیان رکھیے گا کہ شادی کا ذکر شامل نہ ہو، اگر ہو تو احتیاط کیجیے گا کہ مذہب سے باہر نہ ہو اور اگر ہو تو کم سے کم اتنا تو کر ہی سکتے ہیں کہ لڑکی ہندو نہ ہو۔ کیونکہ اگر ہوئی تو پھر بہتر ہوگا کہ بارات گھر سے سیدھے جیل ہی چلے جائیں۔
انڈیا کی کئی ریاستوں نے ایسی شادیوں کو روکنے کے لیے اتنے سخت قوانین بنا دیے ہیں کہ ماں باپ بچوں کو یہ نصیحت کرتے نظر آئیں گے کہ بچے، جرم کرنا ہی ہو تو چاہے بینک لوٹ لینا لیکن خبردار جو مذہب سے باہر شادی کا خیال بھی ذہن میں لائے، ایسی بیڑیاں ہاتھوں میں پڑیں گی کہ شادی کا عمر بھر کا بندھن بھی بچوں کا کھیل نظر آنے لگے گا۔
اور لڑکیاں؟ کیا انہیں اتنی بھی سمجھ نہیں ہے کہ یہ فیصلہ بھی کر سکیں کہ انہیں شادی کس سے کرنی ہے یا کرنی چاہیے؟ یہ سوال ہی فضول ہے، جب مسلمان عورتوں کو بہکا کر یا ڈرا دھمکا کر سڑکوں پر بیٹھایا جاسکتا ہے، جب کسانوں کو پلک جھپکتے گمراہ کیا جاسکتا ہے، جب مزدوروں کو نہیں معلوم کہ ان کے لیے کیا اچھا ہے اور کیا برا، تو کیا صرف لڑکیاں ہی آسمان سے اتری ہیں کہ اپنے اچھے برے کا فرق کر سکیں؟
تو سر، جب سال نو کا جشن منائیں تو ذرا یاد رکھیے گا کہ اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا اور تمام کوششوں کے باوجود ادھر بھی نظر لوٹ ہی جاتی ہے۔
آپ کو نیا سال مبارک ہو۔

شیئر: