Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی سیاحوں کے لیے ترکی اب انتخاب نہیں رہا

بلا شہ ترکی خوبصورت ہے لیکن کوئی خود کو محفوظ محسوس نہیں کر سکتا۔(فوٹو عرب نیوز)
تفریحی سفر کے حوالے سے سعودی شہری اپنی خاص شناخت رکھتے ہیں تاہم کورونا وائرس سے پھیلنے والی عالمی وبا اور اسکے نتیجے میں ہونے والے لاک ڈاؤنز نے دنیا بھر میں سیاحتی صنعت کو متاثر کیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق کورونا وائرس کی ویکسین کی دستیابی کے باعث سیاحتی صنعت کی بحالی کی امیدیں ایک بار پھربڑھ گئی ہیں۔
سعودی شہری ایک بار پھر دنیا بھر کی سیر کرنے اور اپنی پسندیدہ منازل دوبارہ دیکھنے کے لئے انتہائی تجسس کے ساتھ انتظار کر رہے ہیں۔

ایک وقت تھا جب ترکی سیاحتی اعتبار سے سعودی باشندوں کی پسندیدہ منازل میں شامل تھا مگر اب سیکیورٹی وجوہ کی بنا پریہ بین البراعظمی ملک سعودی سیاحوں کا انتخاب نہیں رہا۔
سیکیورٹی کے خدشات نے ترک سیاحتی شعبے کو نقصان پہنچایا ہے ۔ سیاحوں کی تعداد میں کمی نے ترک معیشت کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے ۔
ترک وزارت ثقافت و سیاحت کی جانب سے جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال اگست میں ترکی آنے والے سعودی سیاحوں کی تعداد میں اس سے پہلے سال کی اسی مدت کے مقابلے میں واضح کمی آئی جو 28 فیصد سے زیادہ تھی۔

اسی عرصے میں متحدہ عرب امارات سے سعودی عرب آنے والوں کی تعدا د میں بھی تقریباً 16فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
اکتوبر میں ترکی میں امریکی سفارتخانہ نے  سیکیورٹی الرٹ شائع کیا تھاجس میں کہاگیا تھا کہ اسے استنبول میں غیر ملکیوں کے خلاف ممکنہ دہشتگرد حملوں اور اغوا کی وارداتوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں ۔
امریکی مشن نے اپنے شہریوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ دفاتر کی بڑی عمارتوں، شاپنگ مالزاورایسے مقامات جہاں امریکی یا غیر ملکی اکٹھے ہوسکتے ہوں وہاں انتہائی احتیاط سے کام لیں۔
اس الرٹ میں امریکی باشندوں کو تاکید کی گئی کہ وہ چوکس رہیں ، ہجوم میں نہ جائیں،اپنے گرد و پیش کے بارے میں  باخبررہیں اور ایسے مقامات غیر ملکی اکثر آتے جاتے ہیں، وہاں بھی چوکنا رہیں اور تازہ ترین صورتحال جاننے کے لئے مقامی ذرائع ابلاغ کو  مانیٹر کرتے رہیں۔

سعودی حکام نے بھی رواں سال ترکی میں سعودیوں کے ساتھ چوری اور دھوکہ دہی کے بعض واقعات سامنے آنے کے بعد اپنے شہریوں کے لئے متعدد سفری ہدایات شائع کی ہیں۔
ایک سعودی استاد صلاح سالم نے بتایا  ہےکہ بلا شہ ترکی خوبصورت ملک ہے  لیکن اب وہاں کوئی اپنے آپ کو محفوظ محسوس نہیں کر سکتا۔
میں 3 مرتبہ ترکی کا سفر کر چکا ہوں۔ وہاں کے قدرتی مناظر سے بے حد متاثر ہوا مگر 2017 میں میرا دورہ بھیانک تجربہ ثابت ہواجس نے مجھے ترکی کو اپنے انتخاب سے خارج کرنے پر مجبور کر دیا۔
میں نے یہ بھی دیکھا کہ کئی ترک دکانداروں نے اپنی اشیا مہنگے داموں فروخت کرنی شروع کر دیں۔ میں نے ایک ترک دوست سے دریافت کیا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے تو اس نے جواب دیا کہ ترک لوگوں کے لئے زندگی گزارنا مشکل ہوچکا ہے اور سیاحوں کی موجودگی کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ اس جواب نے مجھے حیران کر دیا۔

سالم نے کہا کہ ٹیکسی ڈرائیور بھی لالچی ہو چکے ہیں۔ ٹیکسیوں میں ویسے تو ڈیجیٹل میٹرز لگے ہوتے ہیں مگر بعض ڈرائیور آپ کومطلوبہ منزل پر طویل راستوں سے لے کر جاتے ہیں۔
سلطان احمد ڈسٹرکٹ سے تقسیم سکوائرتک کا  فاصلہ 6.5کلومیٹر ہے جس کے لئے ٹرام  میں 4 لیرا یعنی 0.5 ڈالر جبکہ ٹیکسی میں15لیرا لگتے ہیں مگر بعض ڈرائیور 30 لیرا طلب کرتے ہیں۔
 
اگرآپ میٹر کے مطابق ادائیگی پر اتفاق کر لیں تو وہ بالکل بھی نہیں ہچکچاتے بلکہ وہ آپ کومتعدد شاہراہوں سے لے کر جاتے ہیں اور اس وقت تک گھماتے ہیں جب تک میٹر پر 30 لیرا یا زائد ظاہر نہ ہو جائیں۔
عبداللہ الدوغہ جو عریبک اسٹڈیز میں پوسٹ گریجویٹ ڈگری کے طالبعلم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ہمیشہ ترکی جانے کا خواب دیکھا ہے مگر حالیہ رپورٹس  کے بعد میں نے دیگر منازل کے بارے میں سوچنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
الدوغہ نے کہا کہ میں ایک ایسے ملک کیوں جاؤں جہاں کے بارے میں میڈیا رپورٹس اورسرکاری ذرائع انتباہ کر رہے ہیں کہ سیاح اپنی جان گنوا سکتے ہیں۔
ترکی کے علاوہ بھی کئی انتخاب اور متبادل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں شادی شدہ ہوں اور میرے دو بچے ہیں۔میں کسی غیر محفوظ ملک کے مہم جو دورے پر نہیں جا سکتا۔
الدوغہ نے کہا کہ میرے تمام دوست یہی باتیں کررہے ہیں کہ ترکی تعطیلات گزارنے کے حوالے سے ایک غیر محفوظ مقام ہے۔ انہوں نے تجویز کیا کہ آذربائیجان، جارجیا اور آرمینیا متبادل سیاحتی منازل ہیں۔

شیئر: