Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پڑوسیوں کے ساتھ ترکی کے تعلقات کیوں بگڑ رہے ہیں

10 سال پہلے ترکی کے خارجہ تعلقات اور کردار بہت مختلف تھا ( فوٹو اے ایف پی)
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے اپنے ملک پر مزید پابندیاں لگانے کے لیے امریکہ کو چیلینج کرنے اور یورپی رہنماؤں کے خلاف سخت بیان بازی کے بعد پیر کو ترک کرنسی لیرا کی قیمت میں کمی واقع ہوئی جس کے بعد ترک لیرا کی قیمت امریکی ڈالر کے مقابلے میں 8 پوائنٹس نیچے آ گئی۔
بمشکل 10 سال پہلے بحیرہ روم اور مشرقِ وسطیٰ میں ترکی کے خارجہ تعلقات اور کردار آج سے بہت مختلف نظر آتے تھے۔ معیشت ایک متاثر کن شرح سے ترقی کر رہی تھی، ایک مقبول اور مستحکم حکومت کے حامل پر اعتماد ترکی نے خطے میں قائدانہ کردار ادا کرنا شروع کر دیا تھا۔
اس  وقت کے ترک وزیر خارجہ احمد داؤد اوغلو اپنے ’ہمسایہ ممالک کے ساتھ  زیرو پرابلم‘ پر بات کر رہے تھے۔ اس کا اعلان پہلی بار 2008 میں ہوا تھا۔ اس پالیسی میں دیکھا گیا کہ ترکی ہر پڑوسی ریاست کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری لایا، جبکہ انقرہ فلسطینی تنازعات، شام کے ساتھ اسرائیلی مذاکرات، امریکی ایران کشیدگی اور افغانستان پاکستان کے تنازعات میں ثالث بن گیا تھا۔
یوروپی اور شمالی امریکہ کے سیاستدان باقاعدگی سے صدر اردوغان کی تعریفیں کرتے یہاں تک کہ اس وقت کے امریکی صدر اوباما نے ترکی کو ایک ’ماڈل‘ مسلمان جمہوریت اور حلیف ملک قرار دیا۔ اسی اثنا میں ترکی کے کاروباری اداروں نے ایشیا،سب صحارا افریقہ اور عرب دنیا  میں توسیع پانے والے منصوبوں کا تعاقب کیا۔
شام کے ساتھ ویزا کی ضروریات کو ختم کر دیا گیا، دوسری عرب ریاستوں کے بارے بھی اسی طرح کے افتتاح کے بات کی گئی۔ یہاں تک کہ انقرہ اور کردستان کی علاقائی حکومت عراق کے مابین تعلقات اس عرصے میں فروغ پائے، باہمی ریاستی دوروں کے بعد جس نے ترکستان کے ساتھ ساتھ ترکی کا پرچم بھی اڑتا ہوا دیکھا۔ گھر میں، انقرہ نے ترکی کی اپنی کرد آبادی کے سیاسی نمائندوں کے ساتھ بھی امن مذاکرات کا آغاز کیا۔
آج صورتحال اس سے زیادہ مختلف نظر نہیں آ سکتی ہے۔ صرف 10سالوں میں، ترکی ’پڑوسیوں کے ساتھ صفر پریشانیوں‘ سے تقریبا ’صفر دوستانہ پڑوسیوں‘ میں چلا گیا ہے۔

ترک کرنسی لیرا کی قیمت میں کمی واقع ہوئی ہے(فوٹو اے ایف پی)

بحیرہ روم میں بحری مشقوں میں فرانسیسی، یونانی، قبرص اور یہاں تک کہ اسرائیلی اور مصری جہازوں کو ترکی کے ساتھ تناؤ کا سامنا ہے۔ کردوں کے ساتھ امن مذاکرات کی جگہ دوبارہ دشمنی شروع ہو گئی اور انقرہ کے عراقی کردوں کے ساتھ تعلقات بھی مزید خستہ حالی کا شکار ہوگئے۔
متعدد عرب ریاستوں نے ترک منصوعات کا بائیکاٹ شروع کر دیا ہے جبکہ فرانس اور کچھ دیگر یورپی ریاستوں نے انقرہ پر یورپی یونین کی پابندیوں کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکی کانگریس اور سینیٹ نے اسی طرح ترکی پر پابندیوں کے لیے اشتعال دلایا ہے جبکہ واشنگٹن میں مختلف تھنک ٹینک ترکی کی نیٹو کا حصہ رہنے کی خواہش پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ اس سال اسرائیلی رہنماؤں نے پہلی بار ترکی کو اپنے سالانہ خطرے کی تشخیص میں شامل کیا ہے اس طرح ان کے تعلقات خراب ہو گئے ہیں۔
یہاں تک کہ ماسکو میں بھی کچھ آوازیں صدر اردوغان کی ’عثمانی عزائم‘ پر پابند ہیں یا نہیں کے بارے میں کھلے عام قیاس آرائیاں کرتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یورپ، امریکہ، یا عرب دنیا کے رہنماؤں اور اردوغان کے مابین الفاظ کی ڈرامائی جنگ کے بغیر ایک ہفتہ بھی نہیں گزرے گا۔ صرف پچھلے دو ہفتوں کے دوران ترکی کے دوسروں کے ساتھ تنازعات اور غیر مستحکم سرگرمیوں نے حقیقت میں ایک متاثر کن فہرست بنائی ہے۔

اردوغان نے فرانسیسی صدر کی ذہنی صحت کے حوالے سے سوال اٹھایا تھا۔(فوٹو عرب نیوز)

ترکی نے حال ہی میں آذربائیجان کو اپنے اسلحے کی برآمد میں اضافہ کیا اور پھر باکو کو ارمینیا کے ساتھ اپنی جنگ دوبارہ شروع کرنے پر مجبور کیا جس نے خاص طور پر ماسکو میں خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ انقرہ نے حریف حکومتوں کے مابین جنگ بندی کے معاہدے کو موثر انداز میں ہلچل مچاتے ہوئے لیبیا میں بھی ایک بگاڑنے والا کردار ادا کیا۔ ترکی بحیرہ روم میں یونان اور قبرص کے گیس کی تلاش کے دعووں کو نظرانداز کرتا رہا ہے۔
ترکی نے بغداد کی خواہشات کے برعکس عراق میں سرحد کے قریب متعدد دیہی برادریوں پر بمباری جاری رکھی جہاں کرد عسکریت پسند سرگرم ہیں اور ساتھ ہی ملک میں اپنے فوجی اڈوں اور فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کیا۔ ترکی نے شام کے بڑے شمالی حصوں پر قبضہ کرنا جاری رکھا  جہاں اس نے لاکھوں کرد شہریوں کو اس وقت بے گھر کر  دیا جب اس نے 2018 میں افرین اور 2019 میں جزیرا پر حملہ کیا تھا۔ اردوغان نے گذشتہ ہفتے کے دوران ایک اہم کرد آبادی والا ملک میں بھی تیسری کارروائی کی دھمکی دینا شروع کر دی تھی۔
ان علاقوں اور زیادہ تر عرب ادلب صوبے میں بھی انقرہ اسلام پسند پراکسی قوتوں کی پشت پناہی اور ان کی تعیناتی جاری رکھے ہوئے ہےجن میں سے کچھ داعش کے سابق جنگجو اور بنیاد پرست ہیں۔ حتی کہ ترکی نے اپنے شامی پراکسی کرائے دار لیبیا اور آذربائیجان بھی بھیجے تاکہ ان تنازعات میں اپنے مفادات کو آگے بڑھانے میں مدد ملے۔

متعدد عرب ریاستوں نے ترک منصوعات کا بائیکاٹ شروع کر دیا ہے(فوٹو اے ایف پی)

مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں اخوان المسلمون سے منسلک گروہوں کے لیے ترکی کی حمایت غیر مستقل طور پر جاری ہےجس نے انقرہ کے مصر،سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اس علاقے میں موجود دیگر ریاستوں کے ساتھ تعلقات کو موثر انداز میں خراب کر دیا ہے جو سیاسی اسلام کی مخالفت کرتے ہیں۔
ترکی کا مذہب کو ایک سیاسی  آلے کے طور پر دنیا بھر میں حمایت حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنا فرانس کے ساتھ اپنے تعلقات میں پھر بھڑک اٹھا ہے۔ جب صدر ایمینوئل میخواں نے فرانس میں اسلام کے سیاسی غلط استعمال کی روک تھام کے لیے اقدامات کا اعلان کیا تھا (پیرس کے قریب ایک فرانسیسی استاد کے سر قلم کرنے کے بعد)، ترک صدر اردوغان نے فرانسیسی اقدامات پر سختی کا اظہار کیا اور صدر ایمینوئل میخواں کی ذہنی صحت کے حوالے سے سوال اٹھایا تھا۔
قطر اور ایران فرانس کی مذمت میں ترکی کے ساتھ شامل ہوگئے۔ یہاں تک کہ ترکی میں حکومت کے زیر کنٹرول میڈیا نے بھی اس کے بارے میں کہانیاں چلائیں کہ فلسطینی اسلامی جہاد  نے(تمام مغربی دہشت گرد گروہوں کی فہرستوں میں ایک چھوٹا اور عام طور پرایک چھوٹا سا ایرانی پراکسی گروپ) ’اسلام اور مسلمانوں کے دفاع کے لیے ترک جمہوریہ کو خراج تحسین پیش کیا۔‘

ترکی دوسروں کے ساتھ محاذ آرائی کرکے معاشی مسائل کو بڑھاتا ہے۔( فوٹو عرب نیوز)

تو ترکی ’ہمسایہ ممالک کے ساتھ صفر کے مسائل‘ سے کیسے گذرا؟ ایک طرف کچھ بڑھتی ہوئی تناؤ کی توقع کی جانی چاہئے۔ مثال کے طور پر چین سمندری سرحدوں اور ساحلی پانی کے خصوصی امور کے بارے میں تیزی سے سنگین تنازعات کھڑا کر رہا ہے۔ چین گذشتہ چند سالوں میں ترکی کی طرح نصف مسلح تنازعات یا مذموم سفارتی تنازعات میں ملوث نہیں ہے تاہم ترکی کی متغیر معاشی نمو تقریبا اسی وقت اس کے ’پڑوسیوں کے ساتھ صفر مسائل‘ کی پالیسی کے مطابق جمی ہوئی ہے۔
جب ترکی کی معیشت سست ہونا شروع ہوئی اور اردوغان حکومت کی مخالفت شروع ہو گئی، تاہم اردوغان نے بیرون ملک اسلام پسندوں کی حمایت دگنی کردی اور لوگوں کو بگڑتی ہوئی معیشت اور اپنی بڑھتی ہوئی آمریت سے لوگوں کی توجہ مبذول کروانے کے لیے ’اسلام کا محافظ‘ کے طور پر اپنا کردار ادا کیا۔
اردوغان نے 2015 میں کمزور انتخابی نتائج کے بعد کردوں کے ساتھ جنگ دوبارہ شروع کرنے کا انتخاب کیا تھا۔ ترکی کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ بیرون ملک بڑھتا الجھاؤ اور دوسروں کے ساتھ محاذ آرائی کرکے معاشی مسائل کو بڑھاتا ہے۔ بہت کم وقت میں، ترکی اپنے آپ کو بہت زیادہ توسیع اور الگ تھلگ پا سکتا ہے۔ اس کے بعد کسی موقع پر، ترک عوام یا تو اس سب کا ذمہ دار  اردوغان کو ٹھہرائے گا یا ترکی خود کو ایک بہت ہی کمزور ریاست یا دونوں بنتے ہوئے دیکھے گا۔

شیئر: