Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سال 2020 کے دوران خواتین نے کیسے ملبوسات پسند کیے؟

کئی برسوں سے دلہن کے ملبوسات میں رنگوں کے حوالے سے تجربات کیے جا رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
ہر سال کی طرح رواں برس بھی فیشن کی دلدادہ خواتین فیشن ٹرینڈز کے حوالے سے خاصی پُرجوش تھیں۔ فیشن ڈیزائنرز اور مختلف برینڈز اس سال کے فیشن ٹرینڈز متعارف کروانے کے لیے مہینوں پہلے سے تیاری میں لگے ہوئے تھے۔
تاہم مارچ میں جب کورونا وائرس نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا تو برینڈز اور ڈیزائنرز میں پریشانی کی لہر دوڑ گئی۔
وہ برینڈز اور ڈیزائنرز جنہوں نے اپنی کلیکشنز تیار کی ہوئی تھیں وہ سوچ میں پڑ گئے اور جو تیاری میں مصروف تھے انہوں نے وہیں تیاری روک دی۔ اس کا انہیں خاصا نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ پھر بھی بہت سارے برینڈز اور فیشن ڈیزائنرز نے اپنی اپنی کلیکشن آن لائن متعارف کروانا شروع کر دیں۔
اگر ہم 2020 میں فیشن کے ٹرینڈز پر نظر دوڑائیں تو پتا چلتا ہے کہ اس برس پچھلے برس سے کچھ مختلف ٹرینڈز نہ تھے۔ سنہ 2020 میں لمبی اور چھوٹی قمیضیں چلتی رہیں، پہلے چھ ماہ چھوٹی جبکہ اگلے چھ ماہ تک لمبی قمیضیں زیادہ پسند کی گئیں۔
مہارانی، انار کلی، راجھستانی فراک،انار کلی فراک، نور جہاں فراک، پشواس میں خواتین کی خاصی دلچپسی رہی۔ اس کے علاوہ کیپریز فیشن میں نہیں تھے لیکن اس کے باوجود ان کا استعمال ہوتا رہا۔

 گوٹے والی شلواریں، بیل بوٹم ،غرارے اور شرارے اور کڑھائی والی شلواریں بھی خاصی پسند کی گئیں (فوٹو: ماہرہ خان فیس بک)

گوٹے والی شلواریں، بیل بوٹم ،غرارے اور شرارے اور کڑھائی والی شلواریں بھی خاصی پسند کی گئیں۔ ٹراﺅزرز یعنی تنگ پانچے والے پاجامے بھی ٹرینڈ کا حصہ رہے جبکہ سٹریٹ ٹراؤزر اور سیگریٹ پینٹس بھی پہنی جا تی رہیں، ان میں خواتین ذرا سلم سمارٹ لگتی ہیں اس لیے ہر طرح کی جسمات رکھنے والی لڑکی کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ سیگریٹ پینٹ اور سٹریٹ پاجامے کا استعمال کرے۔
کم عمر بچیاں کھلے ٹراﺅزر لمبی اور چھوٹی قمیضوں کے ساتھ پہنتی رہیں۔
تھری پیس، ٹو پیس اور سنگل قمیضوں کا رجحان رہا۔ ایمبرائیڈری، چکن کاری، پرنٹس اور ایمبرائیڈری والے دوپٹے فیشن کی دنیا میں مقبول رہے۔
موسم گرما میں لائٹ شرٹس کے ساتھ ایمبرائیڈری سے بھرپور لان کا دوپٹہ بھی پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا۔
جہاں تک فیبرکس کی بات ہے تو پاکستانی جامہ وار، پاکستانی کمخواب، شٹلیلے نیٹ اور جالی کے استعمال سے تیار شدہ ملبوسات خواتین میں پسند کیے جاتے رہے۔ اس کے علاوہ لان کے کپڑوں کو جامہ ور، ٹشو اور جالی کے ساتھ سجایا گیا۔
دلہنوں نے لمبے فراک زیب تن کیے، اس سال ہونے والی شادیوں میں بیشتر دلہنوں نے گھاگرے اور شارٹ بلاوز اور غرارے کا استعمال کیا۔ لمبے اور شارٹ دونوں قسم کے دوپٹے جوڑوں کے ساتھ اوڑھے گئے۔
لان کے کپڑوں پر مشین سے تیار کردہ کڑھائی کے پیچ لگائے گئے، طمشین کے ساتھ ہاتھ کی کڑھائی کو بھی اہمیت دی گئی۔

گوٹے، مرر اور تھریڈورک کورے اور دبکے کا روایتی کام ابھی تک خواتین کے من پسند کپڑوں  کی لسٹ میں شامل ہے (تصویر: اے ایف پی)

پہلے لہنگا ایک ہی رنگ کا ہوتا تھا لیکن کئی برسوں سے دلہن کے ملبوسات میں رنگوں کے حوالے سے تجربات کیے جا رہے ہیں۔ اس سال بھی ایک ہی رنگ کا لہنگا نہیں بلکہ چولی کے لیے ایک رنگ، دوپٹے کے لیے دوسرا اور لہنگے کے لیے تیسرا رنگ استعمال کیا گیا۔
اگر ہم کہیں کہ اس برس دلکش اور بولڈ رنگوں کا استعمال ہوتا رہا تو بے جا نہ ہو گا۔
مختلف قسم کے ریشمی، بروکیڈ، جامہ وار، تانچوئی اور کمخواب کے قیمتی کام دار جوڑے دلہنوں کی پسند رہے ہیں۔ ماضی کے ملبوسات کی طرح اس سال کپڑوں کو گوٹے، زردوزی، مکیش، تلے، کورے، ہینڈ ایمبرائیڈری، نقشی، دبکہ، ریشم، پرلز اور مختلف قسم کے نگینوں سے سجایا گیا۔
جامہ وار، شیفون، آرگینزا، ٹشو، ویلوٹ اور سلک کو اہمیت حاصل رہی ہے جبکہ مکیش، گوٹے، مرر اور تھریڈورک کورے اور دبکے کا روایتی کام ابھی تک خواتین کے من پسند کپڑوں کی لسٹ میں شامل ہے۔

شیئر: