اخروٹ کو طویل عرصے سے دماغی صلاحیت بڑھانے والے ایک سپرفوڈ کے طور پر جانا جاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر غور سے دیکھا جائے تو اس کی شکل بھی انسانی دماغ سے مشابہت رکھتی ہے۔ یہ گری دار میوے غذائیت سے بھرپور ہوتے ہیں، جن میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈز، اینٹی آکسیڈنٹس، فائبر اور پودوں سے حاصل ہونے والا پروٹین شامل ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں
-
اٹلی میں میلان ڈیزائن ویک جہاں عرب دنیا کی جھلک نمایاں ہےNode ID: 888269
-
بڑھتی عمر کے ساتھ صحت مند رہنے کے لیے کون سی غذائیں فائدہ مند؟Node ID: 888272
اگر آپ نے اس غذائیت سے بھرپور میوے کو نظرانداز کیا ہے تو اب وقت ہے کہ خاص طور پر ناشتے میں اسے دوبارہ اپنی خوراک میں شامل کریں۔
حال ہی میں سامنے آنے والی ایک تحقیق کے مطابق دن کا آغاز اخروٹ کے ساتھ کرنے سے یادداشت، ارتکاز اور مجموعی ذہنی کارکردگی بہتر ہو سکتی ہے۔
یونیورسٹی آف ریڈنگ کے محققین نے دریافت کیا ہے کہ ناشتے میں اخروٹ کھانے سے پورے دن کے دوران انسان کی دماغی صلاحیتوں میں بہتری آ سکتی ہے۔
اس تحقیق میں 18 سے 30 برس کی عمر کے 32 صحت مند افراد کو شامل کیا گیا تھا۔
جب تحقیق کے شرکاء نے ایسا ناشتہ کیا جس میں 50 گرام اخروٹ، میوزلی اور دہی شامل تھا تو دیگر افراد کے برعکس ان کی یادداشت اور ردِعمل کے وقت میں نمایاں بہتری دیکھی گئی۔
یہ اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق ہے جس میں نوجوانوں میں اخروٹ کے فوری اثرات کو ایک ہی دن کے دوران جانچا گیا ہے۔
اخروٹ کھانے کے بعد کے اثرات
تحقیق کے دوران شرکاء نے ناشتہ کے بعد چھ گھنٹے تک مختلف ذہنی آزمائشوں میں حصہ لیا جبکہ محققین ان کی دماغی سرگرمی پر نظر رکھتے رہے۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ جن افراد نے اخروٹ کھائے تھے، اُنہوں نے ذہنی طور پر مشکل کاموں کے دوران بہتر نیورل ایفیشینسی (دماغی کارکردگی) کا مظاہرہ کیا۔
خون کے ٹیسٹ سے بھی مثبت تبدیلیاں ظاہر ہوئیں، خاص طور پر گلوکوز اور فیٹی ایسڈز کی سطح میں بہتری آئی جو دونوں دماغی صحت کے لیے اہم سمجھے جاتے ہیں۔
اخروٹ دماغی صحت کے لیے بہترین کیوں ہیں؟
ماہرین کے مطابق اخروٹ کی منفرد غذائی ساخت انہیں دماغ کے لیے فائدہ مند بناتی ہے۔
ان میں موجود اومیگا تھری الفا لینولینک ایسڈ، اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور پولی فینولز اور پودوں سے حاصل شدہ پروٹین مل کر ذہنی کارکردگی اور طویل مدتی دماغی صحت کو سہارا دے سکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے پیچھے موجود حیاتیاتی عوامل کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔