Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

واشنگٹن ہنگامہ آرائی: ’اسی سے بچنے کے لیے تو پاکستان چھوڑا تھا‘

احتجاج کے بعد پارلیمان کی عمارت میں بکھرے سامان کے مناظر نمایاں رہے (فوٹو: اے ایف پی)
امریکہ میں نومنتخب صدر جوبائیڈن کے عہدے کی باقاعدہ منظوری کے لیے ہونے والے اجلاس کے دوران صدر ٹرمپ کے حامیوں کے دھاوے اور ہنگامہ آرائی میں انسانی جانیں ضائع ہوئیں، تشدد ہوا اور سیاسی کشیدگی بڑھی تو اس کی گونج سوشل ٹائم لائنز تک پہنچ گئی۔
سوشل پلیٹ فارمز خصوصا ٹوئٹر پر ایک وقت میں کئی ٹرینڈز امریکی دارالحکومت کی صورتحال بتاتے اور اس پر تبصرہ کرتے صارفین کی گفتگو کے لیے خاص رہے۔
ٹوئٹر ڈیٹا کے مطابق ان درجن بھر ٹرینڈز میں گفتگو کرنے والوں کی تعداد اور ٹویٹس کی مقدار 30 لاکھ سے زائد رہی۔
امریکہ میں مقیم پاکستانیوں میں سے کچھ نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا تو کچھ ایسے بھی تھے جو اس کا موازنہ پاکستان کے سیاسی منظر نامے سے کرتے رہے۔
یونیورسٹی آف میری لینڈ سے منسلک پاکستانی فہیم یونس نے اپنے تبصرے میں لکھا کہ ’اس سے بچنے کے لیے پاکستان چھوڑا تھا۔‘

فہیم یونس کے جواب میں ٹویٹ کرنے والوں میں سے کچھ نے واشنگٹن میں ہوئے احتجاج کو 2014 میں اسلام آباد کے ڈی چوک سے تشبیہہ دی کچھ اسے ماضی میں پارلیمنٹ و سپریم کورٹ پر احتجاج کے واقعات سے جوڑتے رہے۔ البتہ کچھ صارفین نے حقائق کو بنیاد بناتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں کبھی مظاہرین اسمبلی کے اندر داخل نہیں ہوئے، بات لان تک ہی رہی تھی۔

اقرا نورین نامی صارف نے بات آگے بڑھائی تو لکھا کہ ’پاکستان میں چار غیرمسلح آرمی افسران نے پارلیمنٹ کے احاطے میں داخل ہونے والے ہجوم کو قابو کر لیا تھا جب کہ واشنگٹن ڈی سی میں آپ ان کو ہینڈل نہیں کر سکے۔‘

گفتگو کا حصہ بننے والے کچھ افراد نے مغربی ملکوں میں موجود تارکین کے رویوں کو موضوع بنایا تو دعوی کیا کہ اس معاملے میں تضاد پایا جاتا ہے۔
عاصم ملک نامی ہینڈل نے لکھا ’حقیقت یہ ہے کہ لوگ مغرب کی جانب بہتر طرز زندگی اور اچھی آمدن کے لیے جاتے ہیں، جمہوریت ان کی منتقلی کے فیصلے کی وجہ نہیں ہوتی۔‘

سوشل میڈیا ٹائم لائنز پر آنے کے بعد کوئی موضوع مخصوص حد تک نہیں رہتا بلکہ پانی کی طرح جس طرف رستہ بنے چلتا ہی چلا جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی یہاں بھی ہوا اور ٹرمپ کے حامیوں کے احتجاج اور پاکستان میں موجودہ حکومتی یا اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج سے اس کی مماثلت تک پہنچنے والی گفتگو انڈین جھنڈا کیوں؟ کے سوال تک جا پہنچی۔
Dozens have forced their way to the top. More coming up the steps. Police are trying to bolster their numbers through the west doors but someone with a fire extinguisher is dousing them from above. The crowd only keeps cheering. pic.twitter.com/WA526jTBGo
کیپیٹل ہل میں پیدا ہونے والی بدمزگی، تشدد وغیرہ کے باوجود گرفتار ہونے والوں کی تعداد کا محدود ہونا بھی زیربحث آیا۔ کچھ صارفین نے توجہ دلائی کہ ماضی میں ’بلیک لائیوز میٹرز‘ احتجاج کے دوران ہزاروں افراد گرفتار کیے گئے تھے۔

بات سنجیدہ گفتگو سے آگے بڑھی تو طنز کے رنگ بھی نمایاں ہوئے۔ دوسروں ملکوں کے متعلق امریکہ آفیشلز بیانات کا طرز اپناتے ہوئے کی گئی ایک ٹویٹ میں جیمز جے ڈیویسن نامی صارف نے دوسرے ملکوں کی مبینہ تشویش کا ذکر کر ڈالا۔
انہوں نے لکھا کہ ’افغانستان، صومالیہ اور عراق امریکہ کی صورتحال کو بغور دیکھ رہے ہیں، اگر معاملات بگڑے تو وہ حالات کو بہتر بنانے کے لیے واشنگٹن میں امن قائم کرنے والے مشترکہ دستے بھیجیں گے۔‘

یاد رہے کہ امریکی دارالحکومت میں کیپیٹل ہل پر دھاوا بولنے والے مظاہرین کی سپورٹ میں سوشل میڈیا پر فعال ڈونلڈ ٹرمپ کے فیس بک اور ٹوئٹر اکاؤنٹس سوشل نیٹ ورک کی جانب سے بلاک کر دیے گئے ہیں۔

شیئر: