Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمان: 30 برس قبل آنکھوں سے اوجھل ہوجانے والا قریہ

علاقے کے باشندے جانوروں کے افزائش پر گزارا کرتے تھے- (فوٹو سبق)
سلطنت عمان کا قریہ وادی المر 30 برس قبل ریت کے طوفان تلے دب گیا تھا۔ پرانے باشندوں اور قدیم آبادیوں کے شائقین ٹنوں ریت تلے دبے قریے کے احیا کی کوشش کر رہے ہیں۔  
سبق ویب سائٹ کے مطابق وادی المر قریے میں موجود  بعض مقامات کی دیواریں اور چھتیں نظر آ رہی ہیں۔ باقی ماندہ حصہ ریت کے تلے آنکھوں سے اوجھل ہوچکا ہے۔
وادی المر قریہ عمان کے جنوب مشرقی صوبے جعلان بنی بوعلی کی تحصیل میں واقع ہے۔ یہ دارالحکومت مسقط سے  400 کلو میٹر دور ہے۔ نظروں سے اوجھل قریوں تک رسائی بے حد مشکل ہے۔ وہاں جانے کے لیے کوئی سڑک نہیں ہے۔

وادی المر دارالحکومت مسقط سے  400 کلو میٹردور ہے۔ (فوٹو الایام)

عمانی باشندے سالم العریمی نے بتایا کہ اس قریے کا باشندہ تھا۔ یہ 30 برس قبل ریت کے طوفان کی وجہ سے نظروں سے اوجھل ہوگیا تھا۔  
ریت کی یلغار کا مسئلہ سلطنت عمان تک ہی محدود نہیں۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں ریت کا طوفان بستیوں کو اپنی لپیٹ میں لیتا رہتا ہے۔ 
وادی المر قریے کے باشندوں کے لیے ریت کے طوفان کے بعد اپنے قریے میں رہنا ممکن نہیں رہا تھا۔ اس کے کئی اسباب تھے۔ اس کا محل وقوع ملک کی آبادی سے الگ تھلگ ہے۔ یہاں پانی و بجلی کا نیٹ ورک نہیں۔ یہاں کے باشندے جانوروں کے افزائش پر گزارا کیا کرتے تھے۔ ان کے سامنے وہاں سے  چلے جانے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ 

اس شہر میں پانی اور بجلی کا نیٹ ورک بھی نہیں- (فوٹو الایام)

العریمی نے بتایا کہ قریے کے بزرگوں کا کہنا ہے کہ کئی لوگ اپنے بال بچوں کو لے کر آس پاس کے قریوں میں منتقل  ہوگئے تھے تاہم کئی ریت کے طوفان میں دب کر ہلاک ہوگئے۔
ان دنوں قریے کے پرانے باشندوں اور سیر سپاٹے کے شائقین کے ذہنوں میں اس قریے کی یاد ستانے لگی ہے۔ یہ لوگ قریے کے آثار دیکھنے کے لیے وہاں پہنچ رہے ہیں۔ خیمے لگا کر چہل قدمی اور کوہ پیمائی کا شوق کر رہے ہیں۔ 
محمد الغنبوصی نے بتایا کہ ’اس قریے کا پرانا باشندہ ہوں- اس کے مکانات ابھی تک موجود ہیں۔ ان کی تعمیر میں پتھر استعمال ہوئے تھے۔ جس کی وجہ سے مکانات متاثر نہیں ہوئے۔  یہاں 30 مکانات تھے ان میں 150 افراد سکونت پذیر تھے اور مسجد بھی تھی۔‘
محمد العلوی نے بتایا کہ ’چند برس قبل جب اس قریے کے کچھ نشانات ابھر کر سامنے آئے تو میری والدہ نے وہاں جانے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ وہ وہاں پہنچ کر پرانی یادیں تازہ کرکے زارو قطار رونے لگی تھیں۔‘
راشد العامری نے بتایا کہ جب اپنے دو دوستوں کے ہمراہ قریے پہنچا یہ دیکھ کر بے حد عجیب سا لگا کہ قریہ تو نظروں سے اوجھل ہی ہے تاہم ریت کا طوفان کس قدر طاقتور تھا کہ اس کے نشانات آج تک دیکھے جا سکتے ہیں۔ 

 

خود کو اپ ڈیٹ رکھیں، واٹس ایپ گروپ جوائن کریں

شیئر: