Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں تھرمامیٹر اچانک مہنگے ہونے کی وجہ کیا ہے؟

پاکستان ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے سربراہ عاصم رؤف کا کہنا ہے کہ ’ہم تھرمامیٹر کی قیمت میں اضافے کے معاملے کو چیک کریں گے‘ (فوٹو: روئٹرز)
پاکستان میں مہنگائی کی شرح زیادہ ہونے کا اثر تمام ضروری اشیا پر ہوتا ہے لیکن کچھ ایسی بھی اشیا ہیں جن کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ بخار ماپنے کا آلہ یعنی تھرمامیٹر بھی ان میں سے ایک ہے جس کی قیمت میں گذشتہ دو ماہ میں سو سے ڈیڑھ سو فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔  
صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں میڈیکل ڈیوائسز کی تھوک کی سب سے بڑی مارکیٹ لوہاری کے ایک تاجر عبدالرحمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ایسا نہیں ہے کہ مارکیٹ میں تھرمامیٹر شارٹ ہیں یا ان کی طلب میں کوئی کوئی کمی واقع ہوئی ہے۔ ہر چیز معمول کے مطابق ہے بس ان کی قیمت بڑھ گئی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ ہم براہ راست امپورٹر نہیں ہیں ہم نے مال کراچی سے اٹھانا ہوتا ہے۔ تو جو بھی نیا ریٹ نکلتا ہے ہم وہی ادا کرتے ہیں۔ صرف تھرمامیٹر ہی نہیں سرجیکل گلوز اور کئی میڈیکل ڈیوائسز کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے لیکن سب سے زیادہ اضافہ تھرما میٹرز کی قیمتوں میں ہوا ہے۔‘
عبدالرحمان کے بقول ’ہم اس بارے میں کچھ نہیں جانتے کہ اس کی وجہ کیا ہے۔ آج کل مارکیٹ میں ڈیجیٹل تھرمامیٹر بھی بہت زیادہ آرہے ہیں لیکن پارے والے تھرمامیٹرز کی طلب بھی کم نہیں ہوئی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’آج سے دو ماہ پہلے بارہ تھرمامیٹرز کا جو باکس 600 روپے میں بکتا تھا اب 1300 سے 1500 روپے کا مل رہا ہے۔ یعنی ایک تھرمامیٹر جو پچاس روپے کا تھا اب اس کی قیمت سو سے ڈیڑھ سو روپے کے درمیان چلی گئی ہے۔‘ 
کراچی کے ایک تاجر عدنان نذیر جو میڈیکل آلات کی درآمد کے کاروبار سے منسلک ہیں، نے بھی اس سے ملتی جلتی صورت حال کا تذکرہ کیا۔

’آج کل مارکیٹ میں ڈیجیٹل تھرمامیٹر بھی بہت زیادہ آرہے ہیں لیکن پارے والے تھرمامیٹرز کی طلب کم نہیں ہوئی‘ (فوٹو: پکسابے)

انہوں نے بتایا کہ ’کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کی قیمتیں عام مہنگائی کے انڈیکس سے بھی بہت زیادہ ہیں۔ کورونا کے شروع میں تو اشیا مہنگی تھیں ہی لیکن بہت ساری چیزوں کی قیمتیں نیچے بھی آئیں۔ جیسے درجہ حرارت چیک کرنے والی تھرمل گن بیس ہزار کی تھی اب اٹھارہ سو روپے میں مل رہی ہے۔ لیکن پارے والا تھرمامیٹر مہنگا ہوچکا ہے حالانکہ کورونا کے دنوں میں یہ مہنگا نہیں تھا۔‘ 

مہنگائی کی وجہ کیا ہے؟ 

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے عدنان نذیر نے بتایا کہ ’پہلے ایک بات واضح کر لیں کہ یہ مہنگائی امپورٹرز کی طرف سے نہیں کی گئی۔ عالمی منڈی میں پارے کی قیمتیں بڑھی ہیں صرف پارے والے تھرما میٹر ہی مہنگے نہیں ہوئے بلکہ بلڈ پریشر چیک کرنے والے بی پی آپریٹس جن میں پارے کا استعمال ہوتا ہے وہ بھی مہنگے ہوئے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پہلے ایک بی پی آپریٹس 1200 روپے کا مارکیٹ میں پڑتا تھا اب وہ بائیس سو سے پچیس سو روپے کے درمیان پڑ رہا ہے۔ دوسرا حکومت نے درآمدی ڈیوٹی بھی بہت زیادہ بڑھائی ہوئی ہے اور اس کا اثر ہر چیز پر پڑ رہا ہے جو باہر سے منگوائی جارہی ہے۔‘
یہ کہانی اتنی بھی سادہ نہیں، پاکستان ڈرگ لائرز فورم کے صدر ڈاکٹر نورمھر سمجھتے ہیں کہ مختلف میڈیکل ڈیوائسز کی قیمتیں اچانک اس لیے بڑھ جاتی ہیں کہ ان کو کنٹرول کرنے کا نظام ناکارہ ہے۔ ’یہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کا کام ہے کہ صورت حال کو کنٹرول کرے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ ڈریپ کا ادارہ بہت چھوٹا ہے اور اس کو کرنے کے لیے بہت بڑا کام ملا ہوا ہے۔ یہی وجہ  ہے کہ مختلف مافیاز متحرک رہتے ہیں اور اپنی مرضی سے کسی نہ کسی چیز کی قیمت بڑھا دیتے ہیں۔‘
ڈاکٹر نور مہر کے بقول ’میں خود بھی ایک امپورٹر ہوں اور میڈیکل ڈیوائسز منگواتا رہتا ہوں۔ اب اس مارکیٹ کا حجم بھی ادویات کی مارکیٹ کے برابر ہوچکا ہے۔ پانچ ہزار کے لگ بھگ میڈیکل ڈیوائسز پاکستان میں درآمد کی جاتی ہیں۔ ایک تو حکومت نے درآمدی ڈیوٹی پینسٹھ فی صد بڑھا رکھی ہے جس کی وجہ سے درآمدات بھلے وہ انسانی زندگی بچانے سے متعلق ہوں میں اچھی خاصی کمی آئی ہے۔‘ 

پاکستان ڈرگ لائرز فوم کے مطابق ’مختلف مافیاز اپنی مرضی سے کسی نہ کسی چیز کی قیمت بڑھا دیتے ہیں‘ (فوٹو: فری پک)

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’دوسری وجہ یہ ہے کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے میڈیکل درآمدات کے حوالے سے انتہائی سخت قوانین لاگو کر رکھے ہیں اور کسی کی کوئی کھیپ قانونی طریقے سے پہنچ بھی جائے تو اس کو وہاں سے نکوالنے کے لیے بہت پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں اور ہر ڈیوائس کو پہلے رجسڑ کروانا پڑتا ہے۔‘
ڈاکٹر نور مہر کے مطابق امپورٹر اس غیر ضروری بوجھ اور پیچیدگی سے بھی بھاگتا ہے۔ اس لیے جو بھاگ دوڑ کر لیتا ہے پھر وہ من مانے ریٹ بھی لگاتا ہے۔ یہ سلسلہ ایسے ہی چل رہا ہے۔ حکومت کو چاہیے نظام کو سادہ اور ادارے کی استعداد کار میں اضافہ کرے۔‘

ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کا موقف: 

پاکستان ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ اتھارٹی کے سربراہ عاصم رؤف نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہم نے طریقہ کار کو بہت سادہ بنا دیا ہے۔ کسی کی کوئی بھی شپمنٹ جب ایئرپورٹ پر آتی ہے تو چوبیس سے اڑتالیس گھنٹوں میں اس کی رجسٹریشن کا عمل مکمل کر لیا جاتا ہے۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’ یہ ضرور ہے کہ قانون کے مطابق وہ تمام دستاویزات جو فارم فور کے لیے لازمی ہیں ان کا درخواست کے ساتھ نتھی کرنا ضروری ہوتا ہے۔ وہی لوگ شور ڈالتے ہیں جن کے کاغذات پورے نہیں ہوتے۔‘ 
تھرمامیٹرز کے مہنگے ہونے سے متعلق سوال کے جواب میں عاصم رؤف کا کہنا تھا کہ ’ابھی تک ہمارے علم میں ایسی کوئی بات نہیں آئی کہ مارکیٹ میں تھرما میٹرز مہنگے ہیں۔ اب میں اس کو چیک کرواتا ہوں کہ ایسی کیا وجہ ہوئی ہے کہ ان کی قیمتوں میں اس حد تک اضافہ ہوا۔‘

واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: