Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بنگلہ دیش: شادی رجسٹرار بننے کی اجازت نہ دینے پر احتجاج

خواتین سیاستدانوں، وکیلوں اور سماجی کارکنوں نے ہائی کورٹ کے فیصلے پر غصے کا اظہار کیا ہے (فوٹو: دی ڈیلی سٹار)
بنگلہ دیشی خواتین نے مطالبہ کیا ہے کہ ہائی کورٹ کا انہیں مسلم شادی رجسٹرار بننے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ ختم کیا جائے۔
عرب نیوز کے مطابق خواتین کا کہنا ہے کہ فیصلے سے ان کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔
 ڈھاکہ ہائی کورٹ نے ’بعض جسمانی حالات‘ کا حوالہ دیتے ہوئے گزشتہ ہفتے شمالی بنگلہ دیش کے ضلع دینج پور سے تعلق رکھنے والی عائشہ صدیقی کی ایک درخواست مسترد کردی تھی۔
عائشہ کو عورت ہونے کی بنا پر پر مسلم شادی رجسٹرار کی حیثیت سے ملازمت دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔
ہائی کورٹ نے حیض کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مسلم اکژیتی ملک میں خواتین ’مہینے میں کچھ مخصوص ایام میں مسجد میں داخل نہیں ہوسکتیں اور اس جسمانی نااہلی کا مطلب ہے کہ وہ شادی کے اندراج جیسے مذہبی کام نہیں کر سکتیں۔‘
خواتین سیاستدانوں، وکیلوں اور سماجی کارکنوں نے اس فیصلے پر غصے کا اظہار کیا ہے۔
حکمران جماعت عوامی لیگ کی رکن پارلیمنٹ مہر افروز چُمکی نے منگل کو عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ’یہ خواتین کے لیے برابر حقوق کے نظریے کو مسترد کرتا ہے۔ میں اس فیصلے کے خلاف احتجاج کرتی ہوں۔‘
چُمکی جو اپنی پارٹی کی خواتین امور کی سیکرٹری ہیں، نے کورٹ کے فیصلے کو ’ذلت آمیز‘ قرار دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’سعودی عرب میں خواتین کو مساجد میں نماز ادا کرنے کی اجازت ہیں، لیکن بنگلہ دیش میں ہم نے کم ہی ایسا دیکھا ہے۔ میرے خیال میں لوگوں کی ذہنیت تبدیل کرنے کا وقت آ گیا ہے۔‘
بنگلہ دیش نیشنل ویمن لائرز ایسوسی ایشن کی صدر سلمیٰ علی نے کہا ہے کہ ’جسمانی مسائل‘ خواتین کو شادی رجسٹرار کی حیثیت سے ملازمت نہ دینے کی بنیاد نہیں ہونے چاہیے۔
جب کہ  سپریم کورٹ میں عائشہ صدیقی کی اپیل کی پیروی کرنے والی وکیل فوزیہ کریم فروز کا کہنا ہے کہ’متحدہ عرب امارت اور مصر میں خواتین کئی سالوں سے شادی رجسٹرار کی حیثیت سے کام کر رہی ہیں۔‘
دوسری جانب مسجد بیت المکرم کے خطیب، مفتی میزان الرحمن نے کہا اگر دوسرے مسلم ممالک خواتین کو شادی رجسٹرار کی حیثیت سے کام کرنے دیتے ہیں تو اس بات کا امکان ہے کہ بنگلہ دیش ’اسلامی اصولوں کی روشنی میں‘ اس فیصلے پر نطر ثانی کرے۔

شیئر: