Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تیل کی پیداوار میں کمی: عالمی مارکیٹ کے نقطہ نظر میں ڈرامائی تبدیلی

عالمی مارکیٹ میں تیل نرخوں کےحوالے سے مثبت نقطہ نظر لئے سامنے آیا ہے۔(فوٹو عرب نیوز)
سعودی عرب کی جانب سے تیل پیداوار میں حیرت انگیز کٹوتی کے باعث تیل نرخوں کے لیے نقطہ نظر ڈرامائی طور پر اچانک تبدیل ہو گیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق گذشتہ برس کے اختتام کی ایک ایسی صورتحال سے جب برینٹ خام تیل کے نرخ 50 سے 55 ڈالر فی بیرل پر ہی رک جانے کی بات ہو رہی تھی، بہت سے ماہرین 2021 میں تیل نرخ 60  ڈالر تک بڑھنے کی توقع کر رہے ہیں۔
 کہا جا رہا ہے کہ آئندہ  موسم گرما میں متوقع تیزی کے باعث  تیل کے نرخ 65 ڈالر فی بیرل تک بھی پہنچ سکتے ہیں۔

کورونا وائرس میں ہونے والے اضافے سے صورت حال متاثر ضرور ہوئی ہے (فوٹو: عرب نیوز)

امریکی مالیاتی منظرنامے کے’تین بڑے‘ بینک آف امریکہ، گولڈ مین ساکس اور جے پی مورگن (جے پی ایم) سال کے باقی ماندہ عرصے کے لیے تیل نرخوں کے حوالے سے مثبت نقطہ نظر اپنا ارہے ہیں۔
بینک آف امریکہ کا کہنا ہے کہ متعدد میکرواکنامک عوامل تیل کے نرخوں کو 60 ڈالر فی بیرل کی سطح سے آگے لے جانے کے لیے مل سکتے ہیں۔
یہ ہدف گذشتہ برس جون میں سال2021 کے نصف کے لیے متعارف کرایا گیا تھا۔ بینک آف امریکہ نے اعتراف کیا  ہے کہ تیل کے نرخ اس کے اندازوں سے بآسانی زیادہ ہو سکتے ہیں۔

مملکت نے پیداوار میں اضافی ایک ملین بیرل یومیہ کمی کرنے کے لیے کہا تھا (فوٹو: عرب نیوز)

ادھر جے پی مورگن نے کہا ہے کہ تیل کے نرخوں میں ایک ’سپر سائیکل‘  نمودار ہو سکتا ہے۔ یہ ایک ایسی صورت حال ہے جس میں طلب میں اضافہ ہو رہا ہو اور سختی سے کنٹرول کی گئی سپلائی قیمت کو، خواہ عارضی ہی سہی، واضح  بلندی پر لے جائے گی جو موجودہ نرخوں کی سطح سے بھی زیادہ ہو۔
گولڈمین ساکس جو پہلے ہی کاروبار کے حوالے سے انتہائی پراُمید حلقوں میں شامل  ہیں، کے تجزیہ کار ممکنہ طور پر سب سے تیز حالیہ تشخیص میں اس تاریخ کو آگے لے آئے  ہیں جس میں ان کو توقع ہے کہ برینٹ 65 ڈالر فی بیرل کی حد کو چھو لے گا۔
ان کا خیال ہے کہ برینٹ کے تیل نرخ چھ ماہ پہلے ہی یعنی رواں سال جولائی میں اُس سطح تک پہنچ جائیں گے۔

توقع ہے کہ برینٹ 65 ڈالر فی بیرل کی حد کو چھو لے گا (فوٹو: ٹوئٹر)

گولڈ مین نے کہا  ہے کہ سال کے پہلے ہفتے کے واقعات نے ان خطرات کو کافی حد تک کم کر دیا ہے جن میں کہا گیا تھاکہ دوبارہ توازن کی طرف بڑھنے والی مارکیٹ پٹڑی سے اتر گئی ہے۔
ویکسینز کی عالمی سطح پر دستیابی سے لے کر اشیا کی قیمتوں میں عمومی اضافے کے باعث، صنعتی سرگرمیوں میں تیزی کے اشارے مل رہے ہیں۔
یہ صورت حال دنیا کے کئی حصوں میں کورونا وائرس کے کیسز میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے کسی حد تک متاثر ضرور ہوئی ہے لیکن جس چیز نے توانائی سے متعلق تجزیہ کاروں کو مختلف سوچنے پر راغب کیا ہے  وہ سعودی عرب کی جانب سے رواں ماہ کے شروع میں  کیا جانے والا حیران کن فیصلہ ہے۔
اس فیصلے میں سعودی عرب نے تیل پیداوار میں اضافی ایک ملین بیرل یومیہ کمی کرنے کے لیے کہا تھا۔ پیداوار میں اس یک طرفہ کمی  کو مملکت کے اوپیک شراکت دار روس نے ’سال نو کا تحفہ‘ قرار دے کر استقبال کیا تھا۔
 اس نے اوپیک کے اندر تناؤ پیدا کیا۔ اس نے 2020 کے تیل مارکیٹ انتشار کے بعد بھی عالمی سطح پر تیل کی تجارتی فہرست میں اضافہ کیا۔
گولڈ مین نے کہا کہ سعودی عرب کا پیداوار میں کمی کا یک طرفہ اور غیر متوقع فیصلہ ہمارے خیال  میں تیزی سے پھیلتے کورونا  وائرس کے باعث قریبی مدت میں طلب پرمنفی اثرکو متوازن کردے گا۔
سعودی عرب کی جانب سے تیل کی پیداوار میں کی جانے والی کٹوتی کے بارے میں سعودی وزیر توانائی شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان نے کہا ہے کہ یہ ’تیل صنعت کے نگراں‘ کی حیثیت سے سعودی عرب کے کردار کی عکاسی ہے۔
یہ فیصلہ مارچ کی پیداوار کو کم سطح پر رکھے گا۔ کورونا ویکسین منظر عام پر آنے کے باعث عالمی اقتصادی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی ہو گی اور تیل کی عالمی طلب واپس آئے گی۔
گولڈ مین کے مطابق برینٹ کے لیے دیگر مثبت عوامل میں امریکی صدارتی تبدیلی بھی اہم ہے جو  صدر بائیڈن کے دو ٹریلین ڈالر محرک پیکیج  اور امریکی شیل صنعت میں سخت مالیاتی نظم و نسق کے تسلسل کا باعث بنے گی۔
اس میں نمایاں طور پر اضافے کا امکان نہیں جب تک تیل نرخ 65 ڈالر فی بیرل تک نہ پہنچ جائیں۔
 
 

شیئر: