Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جب موسم اور جونٹی رہوڈز نے پاکستان کو شکست دی 

جونٹی رہوڈز کے مطابق تھرو سے انضمام کے رن آﺅٹ ہونے کا امکان پچاس فیصد تھا اس لیے انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا (فوٹو: کرکٹ ڈاٹ کام ڈاٹ اے یو)
کرکٹ میں جونٹی رہوڈز کی فیلڈر کی حیثیت سے شہرت انضمام الحق کو رن آﺅٹ کرنے سے ہوئی۔ کرکٹ کی معروف ویب سائٹ ’کرک انفو‘ پر ان کے پروفائل کا آغاز اسی واقعے کے ذکر سے ہوتا ہے۔ اس رن آﺅٹ سے ملنے والی مشہوری ان کے نام سے چپک گئی۔
جونٹی رہوڈز نے جس میچ میں انضمام الحق کو رن آﺅٹ کیا اس کی روداد سے رہوڈز کے عمل کی اہمیت واضح ہوگی۔
اکیس برس بعد بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی کے بعد جنوبی افریقہ کی ٹیم 1992 کے ورلڈ کپ میں حصہ لے رہی تھی۔ بین الاقوامی کرکٹ میں پاکستان اور جنوبی افریقہ کا پہلا ٹاکرا آٹھ مارچ 1992 کو برسبین میں ہوا۔
اس میچ کی تاریخی اہمیت اپنی جگہ لیکن ٹورنامنٹ میں یہ میچ دونوں ٹیموں خاص طور سے پاکستانی ٹیم کے لیے بہت اہمیت کا حامل تھا جو گذشتہ چار میچوں میں صرف زمبابوے سے ہی جیت پائی تھی۔
انگلینڈ کے خلاف 74 رنز پر آؤٹ ہونے کے بعد ایک ممکنہ شکست سے بارش نے بچا لیا۔ اس سے ایک قیمتی پوائنٹ جو ملا وہ  آگے چل کر پاکستان کے سیمی فائنل میں پہنچنے میں مددگار ثابت ہوا۔  
جنوبی افریقہ نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 211 رنز بنائے۔ برسبین کی بیٹنگ وکٹ پر یہ ہدف باآسانی حاصل کیا جا سکتا تھا۔ پاکستانی ٹیم نے دو وکٹوں کے نقصان پر 72 رنز بنا لیے تھے، کریز پر عمران خان اور انضمام الحق موجود تھے، اس صورت حال میں پاکستانی کپتان خاصے پراعتماد تھے لیکن 21.3 اوورز کا کھیل ہوا تھا کہ بارش ہونے لگی۔
 کھیل دوبارہ شروع ہوا تو موسٹ پروڈکٹیو اوورز میتھڈ کے تحت پاکستان کو 36 اوورز میں 194 رنز بنانے کا ہدف ملا۔  بارش سے پہلے جیت کے لیے پاکستان کو بیٹنگ کے لیے سازگار وکٹ پر فی اوور 4.5 سے کچھ ہی اوپر کی اوسط سے رنز بنانا تھے، لیکن اب اسے  بارش سے متاثرہ وکٹ پر تقریباً نو رنز فی اوور کی اوسط سے رنز کرنا تھے۔

کرکٹ میں جونٹی رہوڈز کی فیلڈر کی حیثیت سے شہرت انضمام الحق کو رن آﺅٹ کرنے سے ہوئی (فوٹو: سکرین گریب)

 ورلڈ کپ میں انضمام الحق پہلی دفعہ بھرپور فارم میں نظر آ رہے تھے۔ انہوں  نے کئی دلکش سٹروکس کھیلے اور لگ یہ رہا تھا کہ اگر وہ اسی انداز سے کھیلتے رہے تو کچھ عجب نہیں کہ پاکستان میچ جیت جائے، لیکن جب وہ 48 کے سکور پر پہنچے تو برائن میک ملن کی گیند ان کے پیڈ پر لگی، بولر نے ایل بی ڈبلیو کی اپیل کی، ادھر انضمام کو لیگ بائی کا رن لینے کی سوجھی، وہ کریز سے نکل کر چند قدم  آگے بڑھے تو عمران خان نے انہیں واپس پلٹنے کا کہا.
 گیند اس وقت پوائنٹ پر کھڑے جونٹی رہوڈز کے ہاتھوں میں آ چکی تھی، معمول کے مطابق تو یہی ہوتا کہ فیلڈر تھرو کے ذریعے بلے باز کو رن آﺅٹ کرنے کی کوشش کرتا لیکن جونٹی کے ذہن میں یہ خیال بجلی کے کوندے کی طرح لپکا کہ کچھ ایسا کیا جائے جس میں ناکامی کا امکان باقی نہ رہے۔

بارش کے بعد کھیل دوبارہ شروع ہوا تو موسٹ پروڈکٹیو اوورز میتھڈ کے تحت پاکستان کو 36 اوورز میں 194 رنز بنانے کا ہدف ملا (فوٹو: اقبال منیر)

وہ گیند ہاتھ میں لیے بڑی سرعت سے وکٹ کی طرف بڑھے اور پھر چیتے کی سی پھرتی سے لمبی قلانچ بھر کر وکٹوں پر جھپٹے اور انضمام الحق کو رن آؤٹ کر کے سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔  فیلڈنگ کا یہ حیران کن مظاہرہ دیکھ کر کیا کھلاڑی، کیا تماشائی، کیا کمنٹیٹر سب حق دق رہ گئے۔
جونٹی رہوڈز نے بعد میں انٹرویوز میں بتایا کہ روایتی طریقے سے یعنی تھرو سے رن آﺅٹ کرنے میں کامیابی کا امکان پچاس فیصد تھا، اس لیے انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا جس میں کامیابی کے بعد انہیں بہت شہرت حاصل ہوئی۔ بارش کی وجہ سے گھاس گیلی ہونے کا بھی اسے فائدہ ہوا کیونکہ اس سے زخمی ہونے کا امکان کم ہو گیا تھا۔  
انضمام الحق کے رن آﺅٹ ہونے سے پاکستان کی کامیابی کے امکانات بہت معدوم ہو گئے، مجموعی سکور میں ایک رن کے اضافے کے بعد عمران خان کی وکٹ گری تو شکست نوشتۂ دیوار بن گئی۔

عمران خان کے آؤٹ ہونے کے بعد وسیم اکرم کا کہنا تھا کہ اس وقت جاوید میانداد کے علاوہ کوئی دوسرا شخص کپتان کے پاس نہیں پھٹک سکتا تھا (فوٹو: اقبال منیر)

کپتان کو پویلین میں غصے کی حالت میں دیکھ کر معروف فوٹو گرافر اقبال منیر نے تصویر بنانے کی ٹھانی، اس سے پہلے کہ وہ اپنے خیال کو عملی جامہ پہناتے، وسیم اکرم نے ان سے کہا کہ وہ ابھی رک جائیں کہ اس وقت جاوید میانداد کے علاوہ کوئی دوسرا شخص عمران خان کے پاس نہیں پھٹک سکتا۔ کچھ ہی دیر میں عمران خان کے پاس میانداد گئے اور انہیں ٹھنڈا کرنے کی اپنی سی کوشش کی۔ ان لمحوں کو اقبال منیر کے کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کرلیا۔
یہ تصویر 1992 کے ورلڈ کپ کے بارے میں ان کی کتاب‘Relive the Passion’ میں شامل ہے۔ اس ورلڈ کپ کی تصویری کہانی اقبال منیر نے بیان کی تو لفظی کہانی ان کے والد اور نامور کرکٹ کمنٹیٹر منیر حسین کے قلم سے رقم ہوئی، اس میں جنوبی افریقہ اور پاکستان کے میچ پر الگ سے باب ہے جس پر مصنف نے یہ بامعنی سرخی جمائی:

جنوبی افریقہ سے میچ میں پاکستان کے لیے واحد مثبت پہلو انضمام الحق کا فارم میں آنا تھا (فوٹو: آئی سی سی فیس بُک)

'موسم اور جونٹی نے پاکستان کو شکست دے دی'
 منیر حسین نے جونٹی کی تحسین پیش کرتے ہوئے ’ورلڈ کپ کا سفر‘ میں لکھا: 'سٹیڈیم میں بیٹھے ہوئے جتنے بھی لوگ اس منظر کو دیکھ رہے تھے وہ سب کھڑے ہو کر تالیاں بجانے لگ گئے۔ اس وقت کسی کو یہ خیال نہیں تھا کہ وہ جنوبی افریقہ کو سپورٹ کر رہا ہے یا پاکستان کو، یہ ایسا کارنامہ تھا جس نے پاکستان کی تمام حکمت عملی کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔'
 جنوبی افریقہ کی کامیابی کی راہ جس موسم نے ہموار کی سیمی فائنل میں وہی موسم اس کا بیری بن کر سامنے آیا۔
جنوبی افریقہ سے میچ کے بعد انضمام الحق آسٹریلیا کے خلاف اگلے میچ میں اور پھر سیمی فائنل میں بھی رن آﺅٹ ہوئے، جس سے ان کے بارے میں اس تاثر نے جڑ پکڑی کہ وہ وکٹوں کے درمیان دوڑنے کے معاملے میں زیادہ چوکس نہیں۔  
جنوبی افریقہ سے میچ میں پاکستان کے لیے واحد مثبت پہلو انضمام الحق کا فارم میں آنا تھا جس کا پاکستان کو صحیح معنوں میں فائدہ نیوزی لینڈ سے سیمی فائنل میں ہوا جس میں  انہوں نے یادگار اننگز کھیل کر ٹیم کو کامیابی دلائی۔ انگلینڈ کے خلاف فائنل میں بھی میں انہوں نے عمدہ بیٹنگ کی تھی۔

شیئر: