Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سفید لباس ’جینٹل مینز گیم‘ کرکٹ کی روایت کیسے بنا؟

کیری پیکر سیریز کا ایک مقصد اس کھیل کو کمرشل بنانا تھا تاکہ کھلاڑیوں کو زیادہ سے زیادہ معاوضہ دیا جا سکے۔ فوٹو: اے ایف پی
’جینٹل مین گیم‘ کے نام سے منسوب کرکٹ کی تاریخ تین صدیوں پرانی ہے۔ 
مختلف ارتقائی ادوار سے گزرنے کے بعد اس ’شریف لوگوں‘ کے کھیل کے قوانین اور قواعد و ضوابط میں کئی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ لیکن تین صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس کھیل کی جو خاصیت تبدیل نہیں ہوئی وہ اس کا سفید لباس ہے۔   
کرکٹ میں سفید یونیفارم ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے جو اب تک اس کھیل کے لیے لازم و ملزوم رہا ہے اور اس کی شان میں اضافے کا باعث ہے۔   
پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹر اور آئی سی سی کے سابق میچ ریفری کرنل (ر) نوشاد علی بتاتے ہیں کہ کرکٹ کا سفید لباس اس کھیل کو دیگر کھیلوں سے منفرد بناتا ہے اور اس کے حقیقی معنوں میں جینٹل مین گیم ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
’کرکٹ کا آغاز تین سو سال پہلے برطانیہ میں ہوا اور یہ جینٹل مین گیم کے نام سے جانا جاتا تھا جس کا مطلب ہے کہ اسے کھیلنے والے قواعد و ضوابط اور سپورٹس مین سپیرٹ کا مظاہرہ کریں گے اور اسی لیے ابتدا سے ہی کھلاڑیوں کے لیے سفید کٹ مختض کی گئی۔‘
سابق ٹیسٹ کرکٹر کے مطابق ’سفید رنگ کا لباس ایک ’سوبر‘ لباس کہلاتا ہے۔ اس سے قانون کے اندر رہنے کا ایک تصور آتا ہے اور جنٹل مین گیم کی نشاندہی کرتا ہے۔‘ 
ابتدا میں کرکٹ کھیلنے کے کوئی خاص قواعد وضوابط تو موجود نہیں تھے لیکن کھلاڑی سفید یونیفارم کے ساتھ ہی میدان میں ایک دوسرے کے مدمقابل ہوتے تھے۔
کرنل (ر) نوشاد علی کے مطابق ’ابتدا میں اس کھیل کو لکڑی کی گیند اور بلے کے ساتھ کھیلا جاتا تھا اور سفید کٹ کے اوپر گرے یا سیاہ کوٹ پہنا جاتا تھا لیکن آہستہ آہستہ گیند، بال، پیڈز کے لیے قوانین بنائے گئے اور سفید یونیفارم کو ہی تمام ٹیسٹ میچز کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔‘   
ابتدا میں کرکٹ میچ پانچ یا چھ روز پر مشتمل ہوتا تھا اور سفید یونیفارم کی ایک وجہ موسم کی شدت سے بھی خود کو محفوظ رکھنا تھا۔

کرنل (ر) نوشاد علی کہتے ہیں کہ کرکٹ کا سفید لباس اس کھیل کو دیگر کھیلوں سے منفرد بناتا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

کرکٹ مبصر اور کمنٹیٹر چشتی مجاہد اس بارے میں کہتے ہیں کہ 'سفید رنگ شفافیت کی طرف اشارہ کرتا ہے اور موسمی اعتبار سے بھی سفید ایک مناسب لباس ہے۔‘  
انہوں نے کہا کہ 'کرکٹ میں سفید یونیفارم کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سرخ رنگ کی گیند سفید یونیفارم میں واضح نظر آتی ہے اور جب ایک روزہ میچز متعارف ہوئے تو اس میں بھی سفید لباس ہی استعمال ہوتا تھا اور 1975 سے 1987 تک ورلڈ کپ بھی سفید لباس میں ہی منعقد کروائے گئے۔‘ 
کرنل (ر) نوشاد علی کا کہنا ہے کہ ’ابتدا میں کرکٹ موسم گرما کا کھیل تصور ہوتا تھا اور آسٹریلیا اور انگلینڈ کے مابین ’ایشز سیریز‘ کھیلی جاتی تھی، دونوں ممالک کے کھلاڑی کشتیوں پر سفر کر کے ایک دوسرے کے ملک کرکٹ کھیلنے جاتے تھے اور پانچ روزہ میچ ہونے کی وجہ سے بھی گرمی کی شدت سے بچنے کے لیے سفید یونیفارم رکھا گیا لیکن سفید یونیفارم کی بڑی وجہ قوانین کی حدود میں رہنے کا تصور ہے۔‘   
کرکٹ میں رنگین کٹ کا تصور پہلی بار آسٹریلوی بزنس مین کیری پیکر نے دیا۔ جب 1977 میں ورلڈ کرکٹ سیریز کے نام سے کیری پیکر نے محدود اوورز کے ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا۔   
کیری پیکر سیریز کا ایک مقصد اس کھیل کو کمرشل بنانا تھا تاکہ کھلاڑیوں کو زیادہ سے زیادہ معاوضہ دیا جا سکے اور اس کھیل کو بطور بزنس استعمال کیا جائے لیکن اس سیریز کا آغاز دلچسپ طریقے سے اس وقت ہوا جب 1976 میں آسٹریلوی ٹیلی ویژن، چینل نائن کو آسٹریلیا میں کھیلی جانی والی ٹیسٹ سیریز کے نشریاتی حقوق دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔

سابق ٹیسٹ کرکٹرز نے کرکٹ کونسل کو سفید لباس پر نمبرز اور نام لکھنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ فوٹو: اے ایف پی

کیری پیکر نے مختلف ممالک کھلاڑیوں سے خفیہ طور پر معاہدے کیے اور 1977 میں کیری پیکر ولڈ کرکٹ سیریز کا انعقاد کر ڈالا جہاں سے کرکٹ کی دنیا میں انقلاب برپا ہوا۔  
ابتدا میں اس سیریز میں ویسٹ انڈیز کے کلائیو لائیوڈ اور مائیکل ہولڈنگ، انگلینڈ کے ٹونی گریک، آسٹریلیا سے گریک چیپل، این چیپل اور ڈینس لیلی، جبکہ پاکستان سے عمران خان جیسے بڑے کھلاڑی شامل تھے۔
اس سریز سے محدود اوورز اور ڈے اینڈ نائیٹ کرکٹ کا تصور ملا۔ 
بعد ازاں سیریز متنازع ہونے کی وجہ سے کھلاڑیوں نے علیحدگی اختیار کر لی  اور 1979 میں دوسرا ایڈیشن ہی سیریز کا آخری ایڈیشن ثابت ہوا لیکن کیری پیکر آسٹریلیا کے کرکٹ کے نشریاتی حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ 
انٹرنیشنل کرکٹ میں ابتدا میں محدود اوورز میں بھی سفید یونیفارم استعمال ہوتا تھا تاہم 1992 کے ولڈ کپ میں پہلی بار تمام ٹیمیں اپنی مختلف رنگوں کی کٹس کے ساتھ انٹرنیشنل ٹورنامنٹ میں میدان میں اتریں۔ 

آسٹریلیا اور انگلینڈ کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان ایشز ٹیسٹ سیریز ہر دور میں اہمیت کی حامل رہی۔ فوٹو: اے ایف پی

کرنل (ر) نوشاد علی اس حوالے سے کہتے ہیں کہ  کیری پیکر نے فرنچائز کے طور پر کرکٹ پر کام کیا اور رنگین یونیفارم متعارف کروایا جس میں محدود اوورز اور فیلڈنگ ریسٹرکشنز کے قوانین متعارف کروائے تاکہ کرکٹ کو ’گلیمرس‘ بنایا جائے اور بزنس اکٹھا کیا جائے اور کھلاڑیوں کو بھی بہتر معاوضہ دیا جا سکے اور اس کھیل سے بھی پیسہ بنیا جائے۔
چشتی مجاہد نے بتایا کہ اس دور میں روایتی لوگ اس سیریز کو پاجاما کرکٹ کے نام سے بھی پکارا کرتے تھے۔  
ٹیسٹ کرکٹ کے تاریخی اور روایتی یونیفارم میں بڑی تبدیلی جولائی 2019 کی ایشز سیریز میں دیکھی گئی جب انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے ٹیسٹ کرکٹ کے دوران کھلاڑیوں کی قمیضوں پر نمبر اور نام لکھنے کی اجازت دی اور تاریخ میں پہلی بار ٹیسٹ میچ کے دوران کھلاڑی نام کے ساتھ شرٹس زیب تن کیے ہوئے میدان میں اترے۔  
آئی سی سی کی جانب سے صدیوں پرانی روایت میں اس تبدیلی پر سابق ٹیسٹ کرکٹرز نے کرکٹ کونسل کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ 
چشتی مجاہد کہتے ہیں کہ شائقین ایک روزہ اور ٹی ٹونٹی میچز دیکھ کر عادی ہو چکے تھے کہ میدان میں موجود کھلاڑیوں کو نام اور نمبرز کی وجہ سے پہچان سکیں، اس لیے آئی سی سی نے ٹیسٹ کرکٹ میں بھی اس تبدیلی کا فیصلہ کیا تاکہ گراؤنڈ میں بیٹھے تماشایوں کو نمبرز اور نام سے کھلاڑی کی پہچان کرنے میں آسانی ہو۔ 

شیئر: