Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

علی گڑھ کے قصے: سرسید بھی کرکٹ میں دلچسپی رکھتے تھے؟

ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی نے’چراغ تلے‘ میں لکھا کہ ’کرکٹ سے ہماری دلبستگی ایک پرانا واقعہ ہے جس پر آج سو سال بعد تعجب یا تأسّف کا اظہار کرنا اپنی ناواقفیت عامہ کا ثبوت دینا ہے۔1857 کی رستخیز کے بعد بلکہ اس سے کچھ پہلے ہی ہمارے پرکھوں کو انگریزی کلچر اور کرکٹ کے باہمی تعلق کا احساس ہوچلا تھا چنانچہ سرسید احمد خان نے انگریزی تعلیم وتمدن کے ساتھ ساتھ کرکٹ کو اپنانے کی کوشش کی۔‘
روایت ہے کہ جب علی گڑھ کالج کے لڑکے میچ کھیلتے تو سرسید میدان کے کنارے جانماز بچھا کر بیٹھ جاتے۔ لڑکوں کا کھیل دیکھتے اور رو رو کر دعا مانگتے: ’الہیٰ! میرے بچوں کی لاج تیرے ہاتھ ہے۔‘
 1890 کی دہائی کے شروع میں علی گڑھ کی ٹیم نے پارسی کرکٹ ٹیم کو ہرایا۔ اس سے حوصلہ بڑھا تو سینٹ سٹیفن کالج دہلی سے میچ کھیلنے گئی، کمپنی باغ میں منعقدہ اس ٹاکرے میں علی گڑھ کی ٹیم ہار گئی۔
اتفاق سے ان دنوں سرسید احمد خان دلی میں تھے۔ ٹیم کی ہار سے وہ خاصے بددل ہوئے تھے۔ کھلاڑیوں کی سرزنش کی اور کہا کہ انھوں نے ہر کھلاڑی کے لیے نتھ بنانے کا آرڈر دیا ہے کیونکہ ان کی شکست سے ثابت ہوا کہ وہ ’بوائز‘ نہیں ’گرلز‘ ہیں۔
 الطاف حسین حالی نے سرسید کی سوانح ’حیات جاوید‘ میں بتایا ہے کہ بچپن میں وہ جو کھیل کھیلتے تھے، ان میں گیند بلا بھی شامل تھا۔
 یہ تو سرسید کی کرکٹ سے دلچسپی کا ذکر ہے اب کچھ بات مولانا شوکت علی کی ہو جائے جن کے میدانِ سیاست میں کارنامے اپنی جگہ لیکن اس سے پہلے وہ میدانِ کرکٹ میں اپنا لوہا منوا چکے تھے۔
علی گڑھ کی کرکٹ ٹیم کے کپتان رہے، یہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد بھی ان کی بیٹنگ کا چرچا رہا۔ بیٹسمینوں کو ہلا شیری دینے کے لیے ان کی مثال دی جاتی۔ ان کے ایک چھکے کی بڑی مشہوری ہوئی جس سے مسجد کے گبند کا کونا جھڑ گیا اور وہ اس شاٹ کی یادگار بن کر رہ گیا۔

مولانا شوکت علی کرکٹ ٹیم کے کپتان رہے اور فارغ التحصیل ہونے کے بعد بھی ان کی بیٹنگ کا چرچا رہا (فوٹو: وکی پیڈیا)

ممتاز ادیب انتظار حسین انڈیا کے سفرنامے ’زمیں اور فلک اور‘ میں لکھتے ہیں کہ ’نظر سرسید کے مزار سے چل کر مسجد کے درو بام پر جاتی ہے، میناروں اور گنبدوں پر۔ ایک گنبد پر جاکر ٹک جاتی ہے۔ سب گنبد اور مینار درست حالت میں ہیں مگر وہ جو گنبد ہے نا۔ اس کا ایک کونا جھڑا ہوا ہے۔ جی، بات یہ ہے کہ مسجد کے عقب میں کرکٹ فیلڈ ہے۔ ایک مرتبہ مولانا شوکت علی نے کھیلتے کھیلتے چھکا مارا۔ گیند اس گنبد سے ٹکرائی۔ کونہ جھڑ گیا۔ اس چھکے کی یاد میں گنبد کا کونا اسی طرح چلا آتا ہے۔‘
انتظار صاحب نے مولانا شوکت علی کے بارے ایک کالم میں لکھا کہ ’کرکٹ کی فیلڈ کی خوبی یہ ہے کہ اس سے ایسے راستے نکلتے ہیں جو دور دور تک پہنچتے ہیں۔ مولانا شوکت علی کرکٹ کی فیلڈ سے نکل کر تحریک خلافت تک پہنچے تھے۔‘
یہ تو خیر بہت پرانی بات ہے، صاحب، ہم تو اس زمانے میں جی رہے ہیں جب بات کرکٹ کی فیلڈ سے نکل کر وزیراعظم بننے تک جا پہنچی ہے۔

’محمد علی جوہر کی قدر مولانا شوکت علی کا بھائی ہونے کی وجہ سے تھی۔‘ (فوٹو وکی پیڈیا)

علی گڑھ میں کرکٹ کے فروغ پر بعض لوگ ناک بھوں بھی چڑھاتے۔ نامور علیگ سر رضا علی نے خود نوشت ’اعمال نامہ‘ میں کرکٹروں کی علی گڑھ میں پذیرائی کو علم کی بے قدری گردانا ہے اور اس سلسلے میں کالج کے پرنسپل مسٹر بیک پر تنقید کی ہے جن کے دور میں کرکٹ کا دور دورہ ہوا۔
 ایک دلچسپ بات سر رضا علی نے یہ لکھی ہے کہ مولانا محمد علی جوہرکی جو تھوڑی بہت قدر ان کی طالب علمی کے زمانے میں تھی، وہ ان کی ذاتی قابلیت کے باعث نہ تھی بلکہ کرکٹ کے مشہور کپتان مولانا شوکت علی کا بھائی ہونے کی وجہ سے تھی۔
 مولانا شوکت علی کی طرح مولانا محمد علی جوہر کو بھی کرکٹ سے لگاوٹ تھی۔ وہ کرکٹ اور اس سے وابستہ کھلاڑیوں کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے، ایک دفعہ ٹرین میں گورے سے اس موضوع پر بات ہوئی تو وہ ان کی معلومات پر حیران رہ گیا۔

علی گڑھ میں کرکٹ کے فروغ پر بعض لوگ ناک بھوں بھی چڑھاتے (فوٹو: فننانشل ایکپریس)

مولانا عبدالماجد دریا بادی نے ان کا جو خاکہ لکھا ہے اس میں وہ بتاتے ہیں:
’ولایت سے کرکٹ کی مشہور ومعروف ٹیم ایم سی سی نئی نئی ہندوستان آئی ہی تھی۔ موضوع گفتگو میں ٹیم تھی۔ اور اس کے کھیل اور مختلف میچ، محمد علی تھوڑی دیر تو چپ سنتے رہے اس کے بعد رہا نہ گیا۔ بولے دخل در معقولات معاف۔ کھلاڑیوں پر آپ جو رائے زنی کر رہے ہیں صحیح نہیں ہے۔ فلاں کھلاڑی میں یہ خوبی ہے اور فلاں میں یہ خرابی۔ اور لگے اس کی تفصیل بیان کرنے اور صاحب تھے کہ بھونچکے بنے ایک مُلا نما انسان کی زبان سے یہ ماہرانہ معلومات سن رہے تھے، محمد علی اب نفس کرکٹ پر آ گئے اور لگے انگلستانی کرکٹ کی تاریخ بیان کرنے۔ لندن میں اور آکسفورڈ میں فلاں سنہ میں بولنگ کے یہ طریقے رائج تھے، گیند کی پچ یوں پڑتی تھی، بیٹنگ یوں کی جاتی تھی، فلاں زمانہ میں یہ تبدیلیاں ہوئیں، ہندوستان اور انگلستان دونوں کی زمینوں میں یہ فرق ہے وغیرہ وغیرہ۔ بولنے والا اب گفتگو نہیں کررہا تھا گویا کرکٹ پر انسائیکلو پیڈیا کا آرٹیکل سنا رہا تھا۔ آخر میں صاحب بولے۔ آپ کو کرکٹ سے متعلق بڑی معلومات ہیں۔ محمد علی نے کہا مجھی کو نہیں بلکہ ہر علی گڑھی کو ایسی ہی معلومات ہوتی ہیں۔ وہ بولا کیا آپ علی گڑھ میں کپتان رہ چکے ہیں۔ یہ بولے میں نہیں تھا۔ بڑے بھائی بگ برادر تھے، شوکت صاحب کے لیے بگ برادر کی تلمیح محمد علی ہی نے اپنے کانگرس کے خطبہ صدارت کے وقت ہی چلا دی تھی۔‘

مولانا محمد علی جوہر کو بھی کرکٹ سے لگاوٹ تھی (فوٹو: محمد علی جوہر یونیورسٹی)

علی گڑھ سکول کے قائم ہونے کے کچھ ہی عرصہ بعد یہاں کرکٹ کی سرگرمیاں شروع ہوگئی تھیں۔ 1878 میں سرسید کے ایما پر باقاعدہ کرکٹ کلب قائم ہو گیا جس کے نگران ریاضی کے استاد رام شنکر مشرا تھے لیکن کرکٹ کی اس ادارے میں صحیح معنوں میں ترقی کا آغاز 1883میں تھیوڈر بیک کے پرنسپل بننے سے ہوا۔
ان کا خیال تھا کہ کرکٹ سے خود انحصاری، جسمانی مضبوطی، جرات اور ٹیم سپرٹ کا درس ملتا ہے۔ 1887 میں پروفیسر ویلس امورِ کرکٹ کے نگران بنے تو کرکٹ کلچر کو اور بھی فروغ حاصل ہوا۔ اس کھیل سے وابستہ لڑکوں کو بہت زیادہ اہمیت دی جانے لگی، ہر سو کرکٹ کا چرچا ہونے لگا، اور کرکٹ ٹیم تعلیمی ادارے کی شناخت کا ذریعہ بن گئی۔ اس پر اعتراضات بھی ہوئے، کہا گیا کہ کرکٹروں کو کچھ زیادہ ہی بانس پر چڑھایا جا رہا ہے۔
معروف نثر نگار مختار مسعود کا کہنا ہے کہ انگریزوں نے برصغیر کے نوجوان طلبہ کے دلوں میں گھر کرنے کے لیے دو مشغلے متعارف کرائے: کرکٹ اور ڈبیٹ۔ ایک کھیل تو دوسرا تماشا۔ ان کے بقول ’اس کھیل تماشے میں نوجوانوں کا دل خوب لگا اور وہ اس کے اسیر ہوگئے۔‘

’مسلمانوں میں کرکٹ کو مقبول بنانے میں بھی علی گڑھ کا بنیادی کردار ہے‘ (فوٹو: علی گڑھ مومنٹ)

1911 میں پہلی دفعہ ہندوستان سے کوئی کرکٹ ٹیم انگلینڈ کے دورے پر گئی۔ علی گڑھ کے تین لڑکے اس ٹیم کا حصہ تھے: خان سلام الدین، سید حسن اور شفقت حسین۔ تینوں اپنے علم اور رکھ رکھاﺅ کی بنیاد پر سب سے منفرد نظر آئے۔ سلام الدین خان بعد میں بھوپال کے چیف جسٹس کے عہدے تک پہنچے۔  
نامور کرکٹ تاریخ دان رام چندر گوہا نے لکھا ہے کہ کرکٹ علی گڑھ کے کھلاڑی لڑکوں کے سماجی روابط میں اضافے کا ذریعہ بھی بنی اور انگریز افسروں سے میل ملاقات سے ان کے لیے اچھی نوکریوں کا راستہ کھلا۔
علی گڑھ یونیورسٹی مسلمانان برصغیر کے لیے جدید تعلیم کی پہلی سیڑھی ہی نہیں بنی بلکہ مسلمانوں میں کرکٹ کو مقبول بنانے میں بھی اس کا بنیادی کردار ہے۔ علی گڑھ تحریکِ پاکستان کا بھی گڑھ رہی۔
یہاں کے طالب علم قائداعظم سے بڑی محبت کرتے تھے۔ قیامِِ پاکستان کے بعد ہمارے یہاں کرکٹ کو جو بہت زیادہ اہمیت ملی اس کے ڈانڈے بھی علی گڑھ سے جا ملتے ہیں۔ اس پہلو کی طرف نامور رائٹر پیٹر اوبورن نے اپنی کتاب Wounded Tiger: A History Of Cricket in Pakistan میں توجہ دلائی ہے اور لکھا کہ پاکستان کرکٹ کی بنیاد، اقدار اور اس کی نمایاں خوبیوں کی کھوج کے لیے سفر کا آغاز علی گڑھ سے ہونا چاہیے اور تحریک پاکستان کی طرح پاکستان کرکٹ کی جڑیں بھی علی گڑھ میں پیوست ہیں۔

1954 میں پاکستان کی جس ٹیم نے انگلینڈ کو ہرایا، اس میں شامل چھ کھلاڑی کا اسلامیہ کالج سے تھے (فوٹو: ای ایس پی این)

 سرسید احمد خان اپنی تعلیمی تحریک کے سلسلے میں پنجاب  کے دورے پر آتے رہے۔ یہاں کے باسیوں کی محبت سے نہال ہوکر انہیں زندہ دلان پنجاب کہا۔
سرسید کی تحریک کی روشنی پنجاب میں بھی پھیلی۔ اس کے اثرات کے نتیجے میں اسلامیہ کالج لاہور کا قیام عمل میں آیا، اس نے  آگے چل کر کرکٹ میں اس قدر اہمیت حاصل کرلی کہ جس پاکستانی ٹیم نے 1954میں انگلینڈ کو اس کی سرزمین پر ٹیسٹ ہرایا، اس میں کپتان عبدالحفیظ کاردار اور جیت میں مرکزی کردار ادا کرنے والے فضل محمود سمیت چھ کھلاڑی اسلامیہ کالج سے تھے۔
باخبر رہیں، اردو نیوز کو ٹوئٹر پر فالو کریں

شیئر:

متعلقہ خبریں