Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یو سی پی میں احتجاج کے بعد لاہور میں گرفتار پانچ طالب علم رہنما کون ہیں؟

گرفتار ہونے پانچ طلبہ اس سے پہلے بھی لاہورمیں سٹوڈنٹس مارچ آرگنائز کر چکے ہیں (فوٹو: اردو نیوز)
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں حال ہی میں مختلف شہروں میں طالب علموں کے احتجاج سامنے آئے ہیں جن میں وہ آن لائن امتحانات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
لاہور میں یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب کے سامنے ہونے والا احتجاج شدت اختیار کر گیا تو پولیس نے نہ صرف لاٹھی چارج کیا بلکہ 500 سے زائد طلبا پر مقدمہ بھی درج کیا گیا اوران میں سے 35 کو گرفتار بھی کیا گیا جو اس وقت حراست میں ہیں۔ 
اس پُرتشدد احتجاج کے اگلے روز لاہور سے پانچ اور طلبا کو ان کے گھروں اور ہاسٹلز سے پولیس نے گرفتار کیا گیا جن پر الزام ہے کہ وہ طلبہ رہنما ہیں اور ان کے اکسانے پر لاہور میں یو سی پی کے سامنے احتجاج ہوا۔
ان طلبہ کی گرفتاری پولیس نے ایک روز بعد ظاہر کی جب انہیں مقامی عدالت میں پیش کیا گیا۔ 
گرفتار ہونے والے یہ پانچ طلبہ اس سے پہلے بھی لاہورمیں ہونے والے سٹوڈنٹس مارچ کو آرگنائز کر چکے ہیں۔ 
ان میں ایک طلب علم زبیر صدیقی ہیں جن کا نام سب سے زیادہ ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر آ رہا ہے۔
زبیر صدیقی کا تعلق بنیادی طور پر بلوچستان کے ضلع پیشین سے ہے۔
ان کے بچپن کے دوست مزمل خان کے مطابق زبیر ایک مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد پرائمری سکول ٹیچر ہیں۔ وہ 2017 میں لاہور آئے اور ایف ایس سی کیا۔ اس دوران وہ بائیں بازو کی طلبہ کی تنظیم پروگریسو سٹوڈینٹس کلیکٹو کے رکن بنے اور طلبہ تنظیموں کی بحالی کے لیے سرگرم ہو گئے اور اب وہ اس تنظیم کے لاہور کے صدر ہیں۔

طلبہ اپنے ساتھیوں کی رہائی کے لیے کوششیں کر رہے ہیں (فوٹو: پروگریسو کلیکٹو)

اس سے پہلے وہ کبھی بھی پولیس حراست میں نہیں آئے۔ اس وقت وہ نمل یونورسٹی میں جرنلزم بیچلرز ڈگری کے طالب علم ہیں۔ 
دوسرے گرفتار ہونے والے طالب علم سلمان ہیں جو جہلم سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے انگلش لٹریچر میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی ہے۔
وہ جی سی یو کی ڈیبیٹنگ سوسائٹی میں بھی رہے ہیں اور پروگریسو کلیکٹو میں سرگرم رہنے کے بعد اب وہ حقوق خلق موومنٹ میں کام کر رہے ہیں۔ تیسرے طالب علم حارث احمد خان ہیں، جن کا تعلق کشمیرسے ہے، وہ پنجاب یونیورسٹی کے سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے طالب علم ہیں اور پی ایس سی میں سرگرم ہیں۔ چوتھے طالب علم ثنااللہ کا تعلق سندھ کے علاقے جامشورو سے ہے اور وہ بھی حقوق خلق موومنٹ میں سرگرم ہیں جبکہ پانچویں طالب علم علی اشرف جی سی یو سے ہسٹری میں گریجویٹ ہیں اور اب وہ حقوق خلق موومنٹ کے سرگرم رکن ہیں۔ 
حقوق خلق موومنٹ عمار علی جان چلا رہے ہیں جن کو مخلتف تعلیمی اداروں سے طلبہ حقوق سے متعلق سرگرمیوں میں حصہ لینے کی وجہ سے نکالا جا چکا ہے۔
پروگریسو سٹوڈنٹس کلیکٹو اور حقوق خلق موونٹ دونوں بائیں بازو کی تنظیمیں ہیں۔ 

طلبہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ امتحانات آن لائن لیے جائیں (فوٹو: پروگریسو کلیکٹو)

پروگریسو سٹوڈنٹس کلیکٹو کے رہنما حسنین جمیل نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پروگریسو سٹوڈنٹس کلیکٹو میں اس وقت تک طلبہ رہنما سرگرم رہتے ہیں جب تک وہ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے رہتے ہیں، فارغ التحصیل ہونے  کے بعد وہ حقوق خلق موومنٹ میں رکنیت اختیار کر لیتے ہیں۔ بنیادی طور پر دونوں تنظیموں کا منشور ایک ہی ہے۔‘ 
یو سی پی انتظایہ بھی یہ الزام لگاتی رہی ہے کہ باہر سے طالب علم احتجاج کرنے کے لیے آئے تھے۔ دوسری طرف ان طلبہ کی گرفتاری پر ایمنسٹی انٹرنشنل اور ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان نے الگ الگ بیانات میں گرفتاریوں کی مذمت کی ہے اور طلبہ کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ لاہور کی مقامی عدالت نے طلبہ کو تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔

شیئر: