Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوئٹہ: آن لائن کلاسز کے خلاف احتجاج، گرفتار طلبہ کی رہائی

پولیس نے گرفتاری کی وجہ دفعہ 144 کی خلاف ورزی بتائی ہے جو وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نافذ ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا
پاکستان کے صوبے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں آن لائن کلاسز کے خلاف احتجاج کرنے والے درجنوں طلبہ کو پولیس نے گرفتار کیا جن میں طالبات بھی شامل تھیں، بعد ازاں وزیراعلیٰ جام کمال کی مداخلت پر گرفتار طلبہ کو رہا کر دیا گیا۔
بلوچ سٹوڈنٹس الائنس کے زیر اہتمام بلوچستان کی مختلف طلبہ تنظییں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے یونیورسٹیوں میں کورونا کے باعث آن لائن کلاسز شروع کرنے کے فیصلے کے خلاف گذشتہ تین دن سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے ہوئے تھیں۔
بدھ کو بھوک ہڑتالی کیمپ سے طلبہ و طالبات نے احتجاجی ریلی نکالی۔ شرکاء بلوچستان اسمبلی اور بلوچستان ہائیکورٹ کی عمارت کے باہر مظاہرہ کر کے احتجاج ریکارڈ کرانا چاہتے تھے تاہم پولیس نے انہیں ٹیکسی سٹینڈ پر روک لیا۔
آگے جانے کی کوشش پر پولیس نے 40 کے قریب مظاہرین کو گرفتار کرکے بجلی روڈ اور سٹی تھانے منتقل کر دیا۔ 
پولیس کا کہنا تھا کہ مظاہرین کو دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر گرفتار کیا گیا ہے۔ شہر میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر اجتماعات پر پابندی عائد ہے۔
رات گئے بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال نے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا کہ حکومت نے طلبہ کی گرفتاری کا حکم نہیں دیا تھا۔ ‘پولیس اور طلبہ میں جھگڑا ہوا جس پر گرفتاری کی گئی۔‘ وزیراعلیٰ نے کہا کہ پولیس کو طلبہ کی فوری رہائی کے احکامات جاری کیے گئے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی کوئٹہ میں طلبہ کی گرفتاری کی مذمت کی۔
احتجاج میں شریک میڈیکل کی طالبہ ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے 70 سے 80 فیصد علاقوں میں موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ کی سہولت ہی دستیاب نہیں۔

ان کے بقول جن علاقوں میں انٹرنیٹ موجود ہے وہاں 12 سے 16 گھنٹے کی بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ بہت سے طلبہ کے پاس لیپ ٹاپ نہیں ایسی صورت میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا یونیورسٹیوں میں آن لائن کلاسز کے ذریعے تعلیم جاری رکھنے کا فیصلہ غیر دانشمندانہ ہے۔ 
ان کا کہنا تھا کہ اپنے آئینی حق کے لیے پرامن احتجاج کرنے والوں کو نہ صرف پولیس نے گرفتار کیا بلکہ تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔
بلوچ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی وائس چیئرپرسن صبیحہ بلوچ کا کہنا تھا کہ صوبے میں آن لائن کلاسز کا فیصلہ زمینی حقائق کو دیکھے بغیر کیا گیا۔ صبیحہ بلوچ کے مطابق سات اضلاع میں انٹرنیٹ کی سہولت سرے سے دستیاب ہی نہیں۔ 

طلبہ کا کہنا ہے کہ آن لائن کلاسز شروع کرنے سے قبل ان کو میسر وسائل پر نظر ڈالی جائے (فوٹو: ٹوئٹر)

انہوں نے کہا کہ طلبہ احتجاج اسی لیے کر رہے ہیں کہ پہلے انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کی جائے اس کے بعد آن لائن کلاسز میں شرکت لازمی کی جائے۔
ایکشن کمیٹی کی وائس چیئرپرسن نے مزید کہا کہ صوبے میں طلبہ کو میسر وسائل پر بھی نظر ڈالی جائے اور اس کو دیکھتے ہوئے فیصلے کیے جائیں تو سب کے لیے بہتر ہوگا۔

شیئر: