Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب کی یونیورسٹیوں کے طلبہ آن لائن امتحانات پر بضد کیوں؟

طلبہ کا موقف ہے کہ چونکہ تعلیم آن لائن دی گئی ہے اس لیے امتحانات بھی آن لائن ہی لیے جائیں (فوٹو: اردو نیوز)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی مختلف یونیورسٹیوں میں طلبہ آن لائن امتحانات کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج کر رہے ہیں۔
منگل کو صوبائی دارالحکومت لاہور میں یہ احتجاج پرتشدد شکل اختیار کر گیا جب یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب کے طلبہ احتجاج کے دوران تصادم میں نہ صرف زخمی ہو گئے بلکہ پولیس نے 500 سے زائد طلبہ پر توڑ پھوڑ اور نقص امن کے تحت مقدمہ بھی درج کر لیا ہے۔
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طلبہ یونیورسٹیوں میں آکر پیپر دینے کو تیار کیوں نہیں؟ اور یہ کہ یونیورسٹیز طلبہ کا یہ مطالبہ کیوں نہیں مان رہیں؟
اردو نیوز نے طلبہ، اساتذہ اور والدین سے بات کر کے ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔

طلبہ کیا سوچ رہے ہیں؟ 

احتجاج کرنے والے طلبہ کا سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ چونکہ ان کو تعلیم آن لائن دی گئی ہے اس لیے ان کے امتحانات بھی آن لائن ہی لیے جائیں۔
ان کا یہ کہنا ہے کہ آن لائن پڑھائی سے تعلیم کا وہ معیار نہیں رہا جو تعلیمی اداروں میں جا کر کلاسز لینے کا تھا۔ اس لیے امتحانات تعلیمی اداروں میں لینا ان کے ساتھ زیادتی ہے۔
طلبہ کا یہ موقف بھی ہے کہ کورونا میں پہلا سمسٹر آن لائن ہوا تو اس کے امتحان بھی آن لائن ہوئے، اب دوسرا سمسٹر بھی آن لائن پڑھایا گیا تو اس کے امتحان یونیورسٹی بلا کر نہیں لیے جا سکتے۔ کئی طلبہ سے بات کر کے یہ سمجھ آیا کہ وہ آن لائن کلاسز کے بعد یونیورسٹیز آ کر امتحان دینے کے لیے خود کو ذہنی طورپر تیار نہیں سمجھتے۔  
دوسرا موقف یہ بھی سامنے آیا کہ جب کورونا وائرس کی وجہ سے آن لائن کلاسز لی گئیں تو کورونا اب بھی موجود ہے، ایسے میں امتحانی سنٹرز میں ہزاروں طلبہ کو اکھٹا کرنا ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔

طلبہ کا موقف ہے کہ ان سے وہ فیسیں وصول کی جا رہی ہیں جو یونیورسٹی آ کر کلاسز لیتے ہوئے لی جاتی ہیں (فوٹو: سکرین گریب)

طلبہ نے اپنے احتجاج میں ایک تیسرا پہلو بھی شامل کر رکھا ہے اور وہ یہ کہ ان سے وہ فیسیں وصول کی جا رہی ہیں جو یونیورسٹی آ کر کلاسز لیتے ہوئے لی جاتی ہیں۔
جیسا کہ انٹرٹینمنٹ فیس بھی سمسٹر واؤچر کے ساتھ وصول کی جا رہی ہے۔
دوسرے لفظوں میں جو احتجاج آن لائن امتحان کے مطالبے سے شروع ہوا تھا اب اس میں دیگر مطالبات بھی شامل ہو گئے ہیں۔  

اساتذہ، یونیورسٹیز انتظامیہ کا موقف: 

اس ساری صورت حال میں اساتذہ اور یونیورسٹیز انتظامیہ ایک ہی صفحے پر دکھائی دیتے ہیں۔ کئی اساتذہ سے بات کرنے کے بعد یہ معلوم ہوا کہ ان کے خیال میں طلبہ یہ سہولت صرف اور صرف نقل کے ذرائع استعمال کرنے کے لیے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
اساتذہ کے مطابق کورونا کی وبا کے دوران پہلے سمسٹر کے امتحانات میں یہ دیکھا گیا کہ طلبہ نے آن لائن سسٹم کا بھر پور فائدہ اٹھایا جس کی وجہ سے جب اساتذہ نے پیپر چیک کیے تو اس بات کا ادراک ہوا کہ بڑے پیمانے پر نقل کی گئی ہے تاہم کورونا کی وجہ سے تقریبا سبھی بچوں کو پاس کر دیا گیا۔
دوسرے سمسٹر میں بھی آن لائن تعلیم کے دوران طلبہ نے اس توجہ سے نہیں پڑھا کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ امتحانات بھی آن لائن ہوں گے لیکن عین وقت پر انہیں پتا چلا کہ پیپر یونیورسٹی آکر دینا ہوں گے تو انہوں نے احتجاج شروع کر دیا۔  
اساتذہ سمجھتے ہیں کہ آن لائن امتحانات سے تعلیم کا معیار بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ یونیورسٹیز کی انتظامیہ یہ سمجھتی ہے کہ یہ ایک ٹرائل ہے، اگر کورونا وائرس اتنی جلدی ملک سے ختم نہیں ہو رہا تو اس کے لیے ایس او پیز پر عمل درآمد کروا کر مستقبل کے تعلیمی بندوبست کو پریکٹس کرنا بھی ضروری ہے۔

طلبہ کا یہ ماننا ہے کہ آن لائن پڑھائی سے تعلیم کا وہ معیار نہیں رہا جو تعلیمی اداروں میں جا کر کلاسز لینے کا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

اگر امتحانات منعقد ہو جاتے ہیں تو اگلے سمسٹر میں کلاسز بھی شروع کی جا سکتی ہیں اور جو تعلیمی حرج ہو رہا اس صورت حال کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔
فیس وصولی کے حوالے سے انتظامیہ یہ سمجھتی ہے کہ ڈگریوں کی فیسیں بڑھائی نہیں گئیں۔ جس دن طلبہ داخلہ لیتے ہیں اسی وقت بتا دیا جاتا ہے کہ یہ ڈگری اتنی فیس میں ہوگی۔ نامساعد حالات میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ فیسیں کم کی جائیں کیونکہ نئے سسٹمز پر منتقل ہونے کے لیے بھی فنڈز درکار ہوتے ہیں۔  

والدین کی کیا رائے ہے؟

آن لائن امتحانات لینے یا نہ لینے کی اس کھینچا تانی میں طالب علموں کے والدین سارے معاملے سے تقریبا لاتعلق ہیں۔ کئی والدین سے بات کرنے کے بعد یہ بات سمجھ آئی ہے کہ وہ اس تصادم جیسی صورت حال سے تو ناخوش ہیں البتہ پیپرز کیسے ہونے ہیں اس کے متعلق وہ کوئی رائے نہیں رکھتے۔  
خیال رہے کہ آن لائن امتحانات کا یہ جھگڑا مختلف سرکاری اور پرائیویٹ یونیوسٹیز کے بیچلرز اور ماسٹرز ڈگریز کے طلبہ کا ہے جبکہ دوسرے آن لائن سمسٹر کے امتحانات فروری میں ہوں گے۔
بعض یونیورسٹیز نے طلبہ کا مطالبہ مانتے ہوئے آن لائن امتحانات کے لیے ہامی بھر لی ہے اور بعض یونیورسٹیاں ابھی اس مطالبے کو ماننے کے لیے تیار دکھائی نہیں دے رہیں۔ 

شیئر: