Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بساط: عمار مسعود کا کالم

پی ڈی ایم نے 26 مارچ کو اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
لوگوں کی پی ڈی ایم سے توقعات کسی حد تک غیر حقیقی ہوتی جا رہی ہیں۔ لوگ چاہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان نے آج اگر ایک جلالی خطاب فرمایا ہے تو کل وہ اسلام آباد کی جانب اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ چڑھائی کر دیں، لوگ چاہتے ہیں کہ نواز شریف نے جو تقریر گوجرانوالہ میں کی ہے اب ہر روز اسی تقریر کا ورد کریں ، لوگ چاہتے ہیں کہ مریم نواز نے آج ایک دھواں دار ٹویٹ کی ہے تو ہر روز وہ ٹوئٹر پر اسی قسم کی مشقِ ستم کریں۔
لوگ چاہتے ہیں کہ اگر بلاول بھٹو نے آج ووٹ کی عزت کے حوالے سے تاریخ کا جو ستم دکھایا ہے وہ ہر روز اسی قسم کے شعلہ آفریں خطابات سے قوم کو نوازیں۔ یہ توقعات تو ہو سکتی ہیں، خواب تو ہو سکتے ہیں، امیدیں تو ہو سکتی ہیں مگر حقیقت نہیں ہو سکتی۔
حقیقت اس سے کہیں کٹھن اور دشوار گزار ہوتی ہے۔ اس منزل تک پہنچے کے لیے کئی دشوار گزار گھاٹیاں طے کرنا پڑتی ہیں، کئی دریا عبور کرنے پڑتے ہیں، کئی چوٹیاں سر کرنا پڑتی ہیں، کئی لق دق صحراؤں کی خاک چھاننی پڑتی ہے۔
ایک ایسا ملک جہاں سیاست اور حکومت پر غیر جمہوری تسلط کی روایت بہت پرانی نہیں، ایک ایسا ملک جہاں میڈیا پر قدغنوں کی روش بہت پرانی نہیں، ایک ایسا ملک جہاں سیاستدانوں پر تہمتیں لگنے کی ریت بہت پرانی نہیں، وہاں ایک نئی سوچ پیدا کرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔
سچ پوچھیے تو اب اس ملک کے سیاستدانوں سے کوئی گلہ نہیں ہے۔ بھٹو سے لے کر نواز شریف تک سب کی جمہوریت پسندی سے کوئی شکوہ نہیں ہے۔ مجیب سے لے کر مفتی محمود سے کوئی اختلاف نہیں، باچا خان سے لے کر اکبر بگٹی تک سے کوئی گلہ نہیں ہے۔ ان لوگوں نے جو کام کرنا تھا برملا کیا، جو کہنا تھا سرعام کہا، جو سہنا تھا سوئے دار تک سہا۔
ان کی حب الوطنی پر نہ کوئی شک ہے نہ کوئی ان کے بیانیے میں شبہ ہے، ان کی بہادری پر نہ کوئی الزام ہے، نہ ان کی دلیری پر کوئی انگلی اٹھا سکتا ہے، ان کی سچائی پر نہ کوئی اعتراض ہے نہ ان کی حق گوئی میں کوئی کلام ہے۔ یہ سب اپنی بساط سے بڑھ کر عوام کے ساتھ رہے، قربانیاں دیں اور جمہوریت کی خاطر لڑتے رہے۔

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے سینیٹ انتخابات پر صدارتی آرڈیننس کی مخالفت کی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

پھر سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس ملک میں منظر کیوں نہیں بدلا، ہماری تقدیر کیوں نہیں بدلی، ہماری سوچ کیوں قید رہی، ہم غلامی سے باہر کیوں نہیں نکلے؟
جبر کے اس شجرے کو پڑھیں تو آپ کو پی ڈی ایم کی حکمت عملی میں خوف نہیں دانش نظر آئے گی۔ آپ قائل ہو جائیں گے کہ سیاست کسی شطرنج کی بساط کی طرح ہوتی ہے، کبھی کبھی بادشاہ کو مات دینے سے پہلے پیادوں سے جنگ لڑنا پڑتی ہے۔ ’شہہ‘ کہنے سے پہلے وزیر کو شکست دینا پڑتی ہے۔ بادشاہ کے گرد گھیرا تنگ کرنے سے پہلے کئی چالیں چلنی پڑتی ہیں، کئی رخ بدلنے پڑتے ہیں، کئی گھوڑے دوڑانے پڑتے ہیں، مخالف کھلاڑی کے چال چلنے پہلے اس کی چال کے مطابق چال چلنی پڑتی ہے، آخری چال سے پہلے توقف کرنا پڑتا ہے، اگلے مہرے کی حرکت کو سمجھنا پڑتا ہے،تُرپ چال کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
یہی دانش آپ کو پی ڈی ایم کی حکمت عملی میں نظر آتی ہے۔ لیکن لوگ جلد باز ہوتے ہیں، عجلت کا شکار ہوتے ہیں، وہ لمحوں میں تاریخ کا فیصلہ بدلنا چاہتے ہیں۔ ایسا میدانِ کارزار میں تو ہو سکتا ہے ہمارے ہاں کی سیاست اس سے مختلف کھیل ہے۔ یہاں مات سے پہلے بساط الٹنے کا خدشہ درپیش ہوتا ہے۔
سچ پوچھیے تو سینیٹ کا الیکشن اتنا بڑا مرحلہ نہیں ہے جتنا اس کا غوغا ہو چکا ہے، نہ ہی اس الیکشن سے بہت کچھ بدل جائے گا۔ لیکن اس الیکشن کی اہمیت اس لیے ہے کہ اس سے ایک سمت کا تعین ہوگا، اس سے پتہ چلے گا کہ پی ڈی ایم کو کون سا بیانیہ اختیار کرنا ہے، کون سی راہ چننی ہے، احتجاج کو کس نہج پر پہنچانا ہے، کون سی جنگ لڑنی ہے، کس منزل کی طرف بڑھنا ہے، کون سے وعدے پورے ہوں گے اور کون سے عہد فراموش کیے جائیں گے، کون ساتھ رکھے جائیں گے اور کن کو بھلا دیا جائے گا۔

پی ڈی ایم نے حکومت کو 31 جنوری تک مستعفی ہونے کی مہلت دی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی

پیپلز پارٹی پر میڈیا مسلسل الزام لگا رہا ہے کہ وہ پی ڈی ایم کے جلالی بیانیے سے منحرف ہو رہی ہے۔ حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے۔ پی ڈی ایم کی سب جماعتیں جمہوریت کے فلسفے پر استقلال سے کھڑی ہیں لیکن یہ اختلاف دکھایا جا رہا ہے، بنایا جا رہا ہے۔ ایک طرف زرداری صاحب کی حکمت عملی ہے، ایک طرف نواز شریف اور مولانا کا بیانیہ ہے، اس کے درمیان کی راہ تلاش کی جا رہی ہے۔
زرداری صاحب کی بات مانی گئی تو سینیٹ کے الیکشن کے نتائج پی ڈی ایم کی توقعات کے مطابق نکلیں گے اور اگر بات نہ مانی گئی تو لانگ مارچ کا آپشن تو بہرحال موجود ہے۔
دیکھنا یہ ہے سینیٹ الیکشن میں کیا وہ وعدے پورے ہوں گے جو کیے گئے تھے۔ اس کا فیصلہ ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔
بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں وقت سے پہلے کچھ کہنا مناسب نہیں ہے، بس اتنا یاد رکھیے کہ سینیٹ کے ان انتخابات سے ایک سمت کا تعین ہونا ہے۔ اس کے آثار اگرچہ ابھی سے واضح ہیں مگر اٹل فیصلے ہونا ابھی باقی ہے۔
واقعات اس بات کا ثبوت پیش کر رہے ہیں کہ ’پالیسی‘ میں جلد واضح تبدیلی ہو گی، لیکن پھر بھی اس کے شواہد آنے تک اس کے بارے میں تشکیک کا رویہ اپنانا دانش مندی ہےاس لیے کہ ایسے اقدامات اتنے سہل نہیں ہیں جتنا ہم تصور کر لیتے ہیں۔
مختصر الفاظ میں بین السطور یہی کہا جا سکتا ہے کہ بساط الٹ دینے کا آپشن اس دفعہ تاریخ میں پہلی بار پی ڈی ایم کو بھی میسر ہے۔

شیئر: