Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فیس بک نے صارفین پر آسٹریلوی میڈیا کی خبریں شیئر کرنے پر پابندی لگا دی

جمعرات کی صبح آسٹریلین صارفین کسی بھی نیوز آرٹیکل کے لنک کو اپنے پلیٹ فارم پر شیئر نہیں کر سکے (فوٹو: گیتٹی امیجز)
آسٹریلیا نے فیس بک کی جانب سے صارفین پر خبروں سے متعلق مواد اور نیوز سٹوری شیئر کرنے پر پابندی عائد کرنے پر تنقید کرتے ہوئے اسے ’طاقت کا بے جا استعمال اور غلط‘ قرار دیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق جمعرات کی صبح آسٹریلین صارفین کسی بھی نیوز آرٹیکل کے لنک کو اپنے پلیٹ فارم پر شیئر نہیں کر سکے اور نہ ہی انہیں مقامی اور بین الاقوامی نیوز ایجنسیوں کے فیس بک پیجز تک رسائی حاصل ہو سکی۔ یہی نہیں بلکہ سمندر پار بیٹھے صارفین بھی آسٹریلین نیوز ایجنسیوں کے پیجز نہیں دیکھ پا رہے۔
آسٹریلیا کی حکومت نے ایک قانون متعارف کرایا تھا جس کے تحت فیس بک کو مواد استعمال کرنے کے ليے مقامی میڈیا اداروں کو پیسوں کی ادائیگی کرنا ہو گی۔
فیس بک اور دیگر ٹیکنالوجی فرمز نے آسٹریلیا کے اس قانون کی مزاحمت کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اس سے پوری دنیا میں ایک مثال قائم ہو جائے گی اور یہ ان کے کاروباری ماڈل کے لیے نقصان دل ثابت ہو سکتا ہے۔ 
فیس بک نے جواب میں نیوز شیئرکرنے پر پابندی لگانے کی دھمکی دی تھی۔ 
آسٹریلوی قانون دان جوش فرائیڈنبرگ کا کہنا ہے کہ ’فیس بک غلط ہے۔ فیس بک کے اقدام غیرضروری ہیں اور وہ اپنی طاقت کا بے جا استعمال کر رہا ہے، اس طرح وہ یہاں آسٹریلیا میں اپنی ساکھ کو متاثر کرے گا۔‘
انہوں نے زور دیا کہ ’حکومت اپنے منصوبے پر عملدرآمد کرنے کے لیے مکمل طور پر پُرعزم ہے۔‘
فرائیڈنبرگ کا یہ بیان ان کی اس ٹویٹ کے بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کی فیس بک کے سی ای او مارک زکربرگ کے ساتھ تعمیری بات چیت ہوئی ہے۔

گوگل نے بھی آسٹریلیا کے مجوزہ قانون پر اعتراض اٹھاتے ہوئے اپنی سروس بند کرنے کی دھمکی دی تھی (فوٹو: روئٹرز)

کئی ہنگامی خدمات فراہم کرنے والے ادارے اور حکومتی پیجز بھی اس پابندی کی لپیٹ میں آئے ہیں جو کورونا وائرس کی وبا، جنگلات میں لگنے والی آگ اور طوفان سے متعلق آگاہی دیتے تھے۔
فیس بک کے ترجمان کا کہنا ہے کہ آج کا یہ اعلان حکموت کے سرکاری پیجز پر لاگو نہیں ہوگا اور کمپنی نادانستہ طور پر متاثر ہونے والے پیجز کو بحال کر دے گی۔‘
آسٹریلیا میں ہیومن رائٹس واچ کے ڈائریکٹر الین پیئرسن نے اس پابندی کو ’خطرناک‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’پورے ملک کے لیے اہم معلومات تک رسائی روکنا غیر ذمہ دارانہ عمل ہے۔‘
آسٹریلیا کے اس مجوزہ قانون پرگوگل نے بھی خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر اسے قانون کی شکل دے دی جاتی ہے تو ان کے پاس سروس بند کرنا ہی واحد چارہ بچتا ہے۔ اس قانون سے جہاں فرد کی نجی پرائیویسی خطرے میں پڑ سکتی ہے وہیں آسٹریلیا کے صارفین جس طرح کمپنی کی خدمات مفت استعمال کرتے ہیں اس سے وہ بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔ 
مقامی میڈیا اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں نے اس بارے میں حکومتی اقدامات کی حمایت کی تھی اور اب فیس بک کے اس اقدام کے بعد میڈیا ہاؤسز کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔

شیئر: