Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سینیٹ انتخابات ریفرنس: ’طریقہ کار میں تبدیلی تک جمہوریت کی مضبوطی خواب رہے گی‘

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے صدارتی ریفرنس پر سماعت کی (فوٹو: اے ایف پی)
سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ ’خفیہ انتخاب ہونے کے باوجود ڈیپ سٹیٹ کو بیلٹ پیپر تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔‘
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے صدارتی ریفرنس پر پیر کے روز سماعت کی۔ 
میاں رضا ربانی نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 'آرٹیکل 20 کے تحت کیس کے ہر فریق کا حق ہے کہ اسے سنا جائے۔ لاپتا افراد بھی اس آئینی حق سے محروم ہیں؟ اعلیٰ ترین مناصب پر بیٹھے لوگوں کو نوٹس بھیجے گئے۔ مسنگ پرسنز بازیاب نہیں ہو سکے۔'
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’آپ کیا کہنا چاہتے ہیں کہ آئین موجود ہے مگر عمل درآمد نہیں ہو رہا؟ 
رضا ربانی نے کہا کہ ’سینیٹ بیلٹ پر بار کوڈ لگانے کی بات کی گئی۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ڈیپ سٹیٹ کی رسائی بیلٹ پیپر تک ہوتی ہے۔'
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ’ایسا کوئی معاملہ عدالت کے سامنے نہیں ہے۔ ہم نے بارہا پوچھا کہ کیا کرپٹ پریکٹسز پر کوئی کارروائی ہوئی آج تک؟ جواب نہیں میں ملا۔' 
رضا ربانی نے کہا کہ 'اگر بیلٹ پیپر قابل شناخت ہے تو اس کے بہت سے مسائل ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ عمل آئین کے آرٹیکل 226 کی خلاف ورزی ہے۔‘
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ’بیلٹ پیپر پولنگ سٹیشن پر ہی سیل کیے جاتے ہیں۔‘ اس پر رضا ربانی نے جواب دیا کہ 'سیل کیے جانے کے باوجود ڈیپ سٹیٹ کی ان تک رسائی ہوتی ہے۔ یہ آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ اس بنا پر بھی ووٹ قابلِ شناخت نہیں ہونا چاہیے۔ قابل شناخت بیلٹ پیپر کی وجہ سے ایک نئی قسم کی بلیک میلنگ اور ہارس ٹریڈنگ شروع ہو جائے گی۔‘
رضا ربانی نے کہا کہ ’عدالت اچھی طرح جانتی ہے، ہم جس دنیا میں رہتے ہیں وہاں ویڈیو بننے میں کتنی دیر لگتی ہے۔ سامنے آنے والی ویڈیو میں میں ہوں یا نہیں اس سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑتا، ویڈیو بن جاتی ہے۔

رضا ربانی نے کہا کہ ’عدالت اچھی طرح جانتی ہے، ہم جس دنیا میں رہتے ہیں وہاں ویڈیو بننے میں کتنی دیر لگتی ہے‘ (فوٹو: سینیٹ)

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہ ’ہم بے شک جس دنیا میں رہتے ہیں وہ پرفیکٹ نہیں، مگر بالآخر انصاف کا بول بالا ہوتا ہے؟‘
رضا ربانی نے کہا کہ ’جب تک کوئی سپریم کورٹ پہنچتا ہے تب تک اسکی شہرت مٹی میں مل چکی ہوتی ہے. خود کشی پر مجبور ہو جاتا ہے۔‘
اس پر چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’انتخابات مضبوط اعصاب کی لوگوں کو ہی لڑنا چاہیے۔‘ رضا ربانی نے جواب دیا کہ ’ہر کوئی چیف جسٹس کی طرح مضبوط اعصاب کا مالک نہیں ہوتا۔‘
سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ 'آپ جس سسٹم کو جاری رکھنا چاہتے ہیں وہ انفرادی ہیروازم کو فروغ دیتا ہے۔‘
’جمہوریت کا تقاضا یہ ہے کہ پارٹی سسٹم مضبوط ہو۔ جب تک ہم عرصہ دراز سے جاری طریقہ کار میں تبدیلی نہیں لائیں گے جمہوریت کی مضبوطی خواب رہے گی۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ اس حوالے سے بھی دلائل دیں۔'
رضا ربانی نے کہا کہ ’پارلیمانی نظام زوال کی طرف جا رہا ہے۔‘
 چیف جسٹس نے کہا کہ ’یہ سلسلہ آج سے نہیں بلکہ شروع سے جاری ہے۔‘

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ’سیاسی اتحاد خفیہ نہ رکھے جائیں‘ (فوٹو: اے پی پی)

رضا ربانی نے جواب دیا کہ ’میں بھی کسی ایک دور کو مورد الزام نہیں ٹھہرا رہا۔ صرف پارلیمان ہی نہیں عدلیہ بھی اس عمل سے متاثر ہوئی۔ آپ کے ادارے نے بھی عملاً بہت سے مشکلات دیکھی ہیں۔‘
’عدلیہ نے کسی حد تک استحکام حاصل کر لیا لیکن پارلیمان نہیں کر سکا۔ اوپن بیلٹ سسٹم کے تحت ووٹر نا صرف ڈیپ سٹیٹ بلکہ سٹیٹ اور پارٹی سربراہ کے ہاتھوں بھی محفوظ نہیں رہے گا۔‘
رضا ربانی نے کہا کہ ’میڈیا رپورٹس کے مطابق ایم کیوایم اور پی ٹی ائی کے درمیان معاہدہ ہوا ہے۔ پی ٹی ائی کراچی میں جلد مردم شماری کے لیے فنڈز دے گی۔ جواب میں ایم کیوایم سینیٹ کے لیے پی ٹی ائی کو ووٹ دے گی۔ کیا عدالت اس عمل کو کرپشن قرار دے گی؟‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جائزہ لیں گے۔ سیاسی اتحاد خفیہ نہ رکھے جائیں۔‘
رضاربانی نے کہا کہ ’بعض اوقات سیاسی اتحاد خفیہ بھی ہوتے ہیں۔ کسی بھی بات کو سیاق وسباق سے ہٹ کر نہیں دیکھا جاسکتا۔ سینیٹ الیکشنز ریاضی کا سوال نہیں سیاسی معاملہ ہے۔ ریاست اپنے 20 ریٹرننگ افسران کو تحفظ نہیں دے سکتی۔‘

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’کم از کم تحقیقات تو ہونی چاہییں کہ سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ ہوئی یا نہیں ہوئی‘ (فوٹو: سینیٹ)

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’دنیا کی تاریخ اختلاف رائے کرنے والوں سے بھری ہے۔ اختلاف رائے کرنے والے نتائج کی پروا نہیں کرتے۔  ڈکٹیٹر کے خلاف بھی لوگوں نے کھل کر اختلاف رائے کیا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جس کی چھ نشستیں بنتی ہوں اسے دو ملیں تو نتیجہ کیا ہوگا؟ کیا کم نشستیں ملنے پر متناسب نمائندگی کے اصول کی خلاف ورزی نہیں ہوگی؟ آئین میں اختلاف رائے پر کوئی نااہلی نہیں ہوتی۔
رضا ربانی نے جواب دیا کہ ’لازمی نہیں کہ صوبائی اسمبلی میں اکثریت لینے والی جماعت کی سینیٹ میں بھی اکثریت ہو۔‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’کم از کم تحقیقات تو ہونی چاہییں کہ ہارس ٹریڈنگ ہوئی یا نہیں ہوئی۔ آج تک ہارس ٹریڈنگ پر کوئی سزا ملی، نہ نااہلی ہوئی۔ بادی النظر میں ہارس ٹریڈنگ کے شواہد پر ووٹ دیکھا جانا چاہیے۔‘
کیس کی سماعت کل دوپہر بارہ بجے تک ملتوی کر دی گئی۔

شیئر: