Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دنیا کی مہنگی ترین عرب پوشاک ’بشت‘ میں خاص کیا؟

الاحسا میں بشت مختلف ناموں سے تیار ہوتی ہے- (فوٹو العربیہ)
سعودی عرب کے علاقے الاحسا کی عرب پوشاک ’بشت‘ دنیا کی مہنگی ترین ہے۔ اس کی کڑھائی ہاتھ سے کی جاتی ہے۔ مقامی باشندے سیکڑوں برس سے ’بشت‘ کی تیاری اور کڑھائی میں فن کاری کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ 
العربیہ نیٹ کے مطابق حبیب بو خضر نے جو عمر کے پانچویں عشرے میں ہیں بتایا کہ الاحسا میں مختلف ناموں سے بشت تیارکی جاتی ہے۔ اس کے مشہور نام الملکی، المخومس، المتوسع، الطابوق اور المرایا ہیں۔ 


بشت کی تیاری کا کام 40 سال سے کررہا ہوں- (فوٹو العربیہ)

بو خضر نے بتایا کہ انہیں البشت کی کڑھائی کے ہنر سے دلی لگاؤ ہے اور وہ چالیس برس سے زیادہ عرصے سے یہ  کام کررہے ہیں۔ اس کا فن گھر والوں سے بچپن ہی میں سیکھ لیا تھا۔ ہمارے گھر میں البشت کی سلائی، کڑھائی اور پورا کام ہوتا تھا۔ 

بشت کی کڑھائی کاطریقہ کار منفرد ہے- (فوٹو العربیہ)

 الاحسا کی  عربی پوشاک البشت کے مہنگا ہونے کا راز بتاتے ہوئے  کہا کہ اس کے لیے خاص کپڑے کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اس کی تیاری میں منتخب دھاگے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس کی کڑھائی کاطریقہ کار منفرد ہے۔ اس کے دھاگے چاندی کے ہوتے ہیں جیسی اور جس درجے کی کڑھائی ہوتی ہے اسی لحاظ سے البشت کی قیمت متعین ہوتی ہے۔ اس کے لیے جاپان، جرمنی کے علاوہ  نجف اور الوبر کا کپڑا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کی قیمت تین ہزار سے دس ہزار ریال تک ہوتی ہے۔ 

بشت کی تیاری میں دھاگے چاندی کے استعمال ہوتے ہیں- (فوٹو العربیہ)

بو خضر نے بتایا کہ الاحسا کی البشت  میں زرد اور چاندی کے  رنگ کے دھاگے لگائے جاتے ہیں- ایک بشت کی تیاری میں پندرہ دن لگتے ہیں۔ آخری دن البشت کو چمکانے کے لیے خاص ہے۔ البشت نہ صرف یہ کہ مرد استعمال کرتے ہیں بلکہ خواتین میں بھی اس کا رواج ہے۔ 
انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب کے دیگر علاقوں کے برعکس الاحسا کا علاقہ دستکاری میں اپنی ایک پہچان بنائے ہوئے ہے۔ ماضی قریب تک یہ پیشہ پورے الاحسا میں رائج تھا۔ حالیہ ایام میں اس حوالے سے ہنر مندوں کی تعداد کم ہوگئی ہے۔ بعض لوگ اسے مشکل سمجھتے ہیں اسی لیے اس میں دلچپسی نہیں لیتے-  

بوخضر بیرون مملکت اپنے فن کا مظاہرہ کرچکے ہیں- (فوٹو العربیہ)

حبیب بو خضر نے مزید کہا کہ  وہ البشت چالیس برس سے زیادہ عرصے سے تیار کررہے ہیں لیکن آج بھی وہ اس حوالے سے نہیں کہہ سکتے کہ وہ اس میں ماہر ہوگئے ہیں۔ سیکھنے سکھانے کا عمل اب بھی جاری ہے۔ بوخضر لندن، شارجہ اور جنادریہ میں منعقدہ تقریبات کے دوران البشت کی کڑھائی کے حوالے سے اپنے فن کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔ 
 
واٹس ایپ پر سعودی عرب کی خبروں کے لیے اردو نیوز گروپ جوائن کریں

شیئر: