Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا میں ’مقدس‘ گائے کے معدے سے 71 کلوگرام کُوڑا برآمد

رپورٹ کے مطابق ’صرف لکھنو میں ہر سال ایک ہزار گائے پلاسٹک کھانے سے مر جاتی ہیں‘ (فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا میں جانوروں کے ڈاکٹروں نے ایک حاملہ گائے کے معدے سے 71 کلوگرام پلاسٹک، کیل اور کوڑا کرکٹ نکالا ہے لیکن گائے اور اس کا بچہ دوران آپریشن ہلاک ہو گئے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ’اس واقعے نے انڈیا کے دو مسائل آلودگی اور آوارہ جانوروں کے معاملے کو پھر سے اجاگر کیا ہے۔‘
ایک اندازے کے مطابق انڈیا میں 50 لاکھ آوارہ گائیں ہیں اور ان میں سے بہت سی گلیوں میں بکھرا کوڑا کرکٹ کھاتی ہیں۔

 

اس گائے کو جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’پیپل فار اینیملز ٹرسٹ‘ فرید آباد نے فروری میں ایک حادثے میں ریسکیو کیا تھا۔
ڈاکٹر نے دیکھا کہ گائے حاملہ ہے اور پھر اس کا چار گھنٹے تک آپریشن ہوا۔ تنظیم کے صدر روی دوبے نے کہا کہ ’ڈاکٹروں کو گائے کے معدے سے کیل، پلاسٹک اور کنچے وغیرہ ملے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’گائے کے پیٹ میں اتنی جگہ نہیں تھی کہ بچہ پرورش پا سکے، اس لیے وہ مر گیا۔ اس کے تین روز کے بعد گائے بھی مر گئی۔‘
روی دوبے کا کہنا ہے کہ ’ان کے 13 برس کے تجربے میں انہوں نے گائے کے معدے میں اتنا کوڑا کرکٹ نہیں دیکھا۔ اس سے قبل اس تنظیم کو گائے کے معدے سے 50 کلوگرام تک کوڑا ملا تھا۔’
روی دوبے نے کہا کہ ’گائے ہمارے لیے مقدس ہے لیکن کوئی اس کی پروا نہیں کرتا۔ ہر شہر میں وہ کوڑا کرکٹ کھاتی ہیں۔‘

انڈیا کی کچھ ریاستوں میں گائے کو ذبح کرنے یا کھانے پر پابندی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

انڈین وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت میں گائے کے حوالے سے سخت قوانین بنانے کے بعد شہروں میں زیادہ گائیں دیکھی جا رہی ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق مودی کے دور حکومت میں گائے کی تجارت کرنے کے شبے میں لوگوں پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
گائے کی حفاظت کرنے والے ہندوؤں نے گائے کا گوشت لے جانے کے شک میں مسلمانوں اور دلت ہندوؤں پر حملے کیے اور قتل بھی کیے۔
انڈیا کی کچھ ریاستوں میں گائے کو ذبع کرنے یا کھانے پر پابندی ہے۔
آندرا پردیش میں جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم کے نائب صدر کا کہنا ہے کہ ’گلیوں میں آپ کو جہاں بھی گائے نظر آئے تو سمجھ لیں کہ اس کا معدہ پلاسٹک سے بھرا ہوا ہے۔ میرا دل ان کے لیے دُکھتا ہے کیونکہ وہ مر سکتی ہیں۔‘

سرکاری سطح پر اعداد و شمار موجود نہیں ہیں جن سے اندازہ لگایا جا سکے کہ ہر سال پلاسٹک کھانے سے کتنی گائیں مرتی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

سرکاری سطح پر اعداد و شمار موجود نہیں ہیں جن سے اندازہ لگایا جا سکے کہ ہر سال پلاسٹک کھانے سے کتنی گائیں مرتی ہیں۔
تاہم 2017 میں ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ ’صرف لکھنو میں ہر سال ایک ہزار گائیں پلاسٹک کھانے سے مر جاتی ہیں۔‘

شیئر: