Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب میں ورکرز کی مہارت کا ٹیسٹ، کیا پاکستانیوں کے لیے کوئی مسئلہ ہوگا؟

سعودی عرب میں اس وقت 26 لاکھ کے قریب پاکستانی ورکرز موجود ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن (نیوٹیک) کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں مقیم پاکستانی ورکرز کو ’پروفیشنل ویری فیکیشن پروگرام‘ سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ تصدیقی عمل سے وہی گزریں گے جو کسی سرٹیفکیٹ، ڈپلومہ یا ڈگری کی بنیاد پر سعودی عرب گئے تھے۔
سعودی عرب کی وزارت انسانی وسائل و سماجی ترقی نے سعودی عرب میں ورکرز کی مہارت اور استعداد کار جانچنے کے لیے ’پروفیشنل ویری فیکیشن پروگرام‘ شروع کیا ہے۔ جس کے تحت جولائی 2021 میں سعودی عرب میں مقیم ورکرز کا تحریری اور پریکٹیکل ٹیسٹ لیا جائے گا تاکہ پتہ چلایا جا سکے کہ وہ جس مہارت کی بنیاد پر سعودی عرب آئے ہیں وہ اس پر پورا بھی اترتے ہیں یا نہیں۔
اگلے مرحلے میں سعودی عرب آنے کے خواہش مند افراد سے ان کے ملک میں منتخب ٹیسٹنگ سینٹرز کے ذریعے ٹیسٹ اور ڈگری کی تصدیق کاباضابطہ سلسلہ شروع کیا جائے گا۔
بیورو آف امیگریشن کے مطابق پاکستان سے عموماً 40 سے زائد پیشہ وارانہ گروپس سے تعلق رکھنے والے ورکرز بیرون ملک جاتے ہیں۔ جن میں سے 30 فیصد سے زائد سعودی عرب کا رُخ کرتے ہیں۔
ان گروپس کو پیشہ وارانہ مہارت اور صلاحیت کے اعتبار سے پانچ کیٹگریز میں تقسیم کیا جاتا ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ، اعلیٰ مہارت یافتہ، ہنر مند، نیم ہنر مند اور غیر ہنر مند ہیں۔
ان پیشہ وارانہ گروپس میں مجموعی طور پر سب سے بڑی تعداد مزدوروں یعنی غیر ہنر مند افراد کی ہے۔ دوسرے نمبر پر ڈرائیور، تیسرے نمبر پر مستری جبکہ چوتھے نمبر پر کھیتی باڑی کرنے والے کسان ہیں۔
ٹیکنیشن، خانسامہ، کلرک، الیکٹریشن، ویٹر، ویلڈر اور مکینک کے شعبوں میں بھی بڑی تعداد میں پاکستانی سعودی عرب میں موجود ہیں۔

جولائی 2021 میں سعودی عرب میں مقیم ورکرز کا تحریری اور پریکٹیکل ٹیسٹ لیا جائے گا۔ فائل فوٹو: فری پک

سعودی عرب میں اس وقت 26 لاکھ کے قریب پاکستانی ورکرز موجود ہیں جن میں حالیہ برسوں میں ہنر مند ورکرز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جبکہ دوسری بڑی تعداد مزدور یعنی غیر ہنر مند ورکرز کی ہے۔
گذشتہ دو سالوں کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سال 2019 میں کل چھ لاکھ 25 ہزار 203 پاکستانی بیرون ملک گئے۔ جن میں سعودی عرب جانے والے تین لاکھ 32 ہزار یعنی 50 فیصد سے زائد تھے۔  
اسی طرح سال 2020 میں دو لاکھ 25 ہزار افراد ہی بیرون ملک جا سکے جن میں سے ایک لاکھ 36 ہزار یعنی کم و بیش 60 فیصد نے سعودی عرب کا رُخ کیا۔ اس میں سے ہنر مند اور غیر ہنر مند کا تناسب الگ کیا جائے تو ہنر مند افراد کی تعداد نسبتاً زیادہ ہے۔
نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ناصر خان نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’پروفیشنل ویری فیکیشن پروگرام‘ ایسا نہیں ہے کہ اچانک لانچ کر دیا گیا ہے بلکہ 2017 میں سعودی عرب نے انجینئیرنگ کونسل بنائی۔ تمام ان ورکرز کو جنہوں نے کسی سرٹیفکیٹ، ڈپلومہ یا ڈگری کی بنیاد پر ویزہ حاصل کیا تھا انھیں رجسٹر ہونے کا کہا گیا۔ جن لوگوں نے خود کو رجسٹر کیا اب ان کی ڈگریوں کی تصدیق اور ٹیسٹ ہوگا۔‘
انہوں نے کہا کہ کسی بھی پاکستانی ورکر کو سعودی عرب میں ملازمت یا ویزہ دینے سے پہلے آجر پاکستان آتے ہیں اور سرٹیفکیٹ کے ساتھ ساتھ ٹیسٹ بھی لیتے ہیں جس کے بعد ہی ویزہ دیا جاتا ہے۔
’ہمیں اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سعودی عرب میں موجود پاکستانی ورکرز اپنے شعبوں میں مہارت رکھتے ہیں۔ کہیں کہیں پرانے سرٹیفکیٹس کی تصدیق اس لیے نہیں ہو پاتی کہ ان کا ریکارڈ دستیاب نہیں ہوتا۔ اس کا بھی ہم نے طریقہ نکالا ہے کہ ورکرز کی جانب سے ثبوت دینے کی صورت میں سرٹیفکیٹ کی تصدیق کر دی جائے گی۔‘

ایگزیکٹو ڈائریکٹر نیوٹیک کے مطابق 'ورکرز کی جانب سے ثبوت دینے کی صورت میں سرٹیفکیٹ کی تصدیق کر دی جائے گی۔‘ فائل فوٹو: اے ایف پی

ڈاکٹر ناصر خان نے بتایا کہ اس پروگرام کے تحت صرف وہی لوگ ٹیسٹ اور تصدیق کے عمل سے گزریں گے جنہیں ویزہ ہی سرٹیفیکیٹ کی بنیاد پر دیا گیا ہے۔
’اس میں ایک اور صورت یہ بھی بن سکتی ہے کہ ایک ورکر بطور مستری گیا لیکن اس نے کسی پروجیکٹ پر ویلڈنگ یا پلمبرنگ سیکھ لی اور کام حاصل کر لیا۔ اب اس کے پاس سرٹیفکیٹ نہیں ہے تو نیوٹیک نے اس کا انتظام بھی کر لیا ہے جس کے تحت ان ورکرز کو پاکستان آنے کی صورت میں نیوٹیک کے 100 سے زائد مراکز میں ایک چھوٹا سے مفت امتحان لینے کے بعد سرٹیفکیٹ جاری کر دیتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں Recognition Of Prior Learning یہ سہولت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے علاوہ مقامی ورکرز کو بھی دستیاب ہے۔ یہ سرٹیفکیٹ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں تسلیم کیے جاتے ہیں۔‘
ایگزیکٹو ڈائریکٹر نیوٹیک نے بتایا کہ ’اس سہولت میں قدم مزید آگے بڑھ رہے ہیں اور سعوودی عرب اور امارات میں بھی ایسے سینٹرز قائم کرنے جا رہے ہیں جو ورکرز کا ٹیسٹ لے کر ان کو سرٹیفکیٹ جاری کیا کریں گے۔ اس حوالے سے وزارت سمندر پار پاکستانیز، وزارت خارجہ اور سفارت خانوں سے بات چیت جاری ہے۔‘

ایگزیکٹو ڈائریکٹر نیوٹیک کا کہنا ہے کہ 'ورکرز کی ڈگری کی تصدیق نیوٹیک یا متعلقہ شعبے کی اتھارٹی دونوں کے ذریعے ممکن ہے۔' فائل فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے بتایا کہ ’ورکرز کی ڈگری کی تصدیق نیوٹیک یا متعلقہ شعبے کی اتھارٹی دونوں کے ذریعے ممکن ہے۔ ہم اس نظام کو مزید موثر بنا رہے اور کوشش کر رہے ہیں کہ تصدیقی عمل سخت ہو جائے تاکہ یہاں سے جانے کے بعد ورکرز کو کوئی مسئلہ یا پریشانی نہ ہو۔‘
اردو نیوز سے گفتگو میں پاکستان اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز ایسوسی ایشن کے صدر محمد عثمان نے کہا کہ ’پاکستان سے تو زیادہ تر ورکرز جاتے ہی بغیر کسی سرٹیفکیٹ کے ہیں۔ وہ جس ملازمت کے لیے جاتے ہیں آجر یا اس کے نمائندے اس کا ٹیسٹ لیتے ہیں۔ اگر وہ ہمارے اوپر چھوڑیں تو یہ شرط ہوتی ہے کہ اگر ورکر معیار پر پورا نہ اترا تو واپسی کا ٹکٹ ہمیں دینا پڑے گا۔ اس لیے ہم بھی سو فیصد یقینی بناتے ہیں کہ کسی قسم کا کوئی دھوکہ نہ دیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سرٹیفکیٹ اور ڈگریوں کے تصدیقی عمل سے بھی پاکستانی ورکرز کو کوئی پریشانی نہیں کیونکہ وہ پاکستان میں مختلف سطحوں پر تصدیقی عمل سے گزر کر ہی جاتے ہیں۔‘

شیئر: