Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب میں مقیم پاکستانی ترسیلات زر کی فہرست میں سب سے آگے

جنوری 2021 میں ترسیلات زر 2 ارب 27 کروڑ 36 لاکھ ڈالر رہیں۔ فوٹو فری پک
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے مسلسل آٹھ ماہ تک ماہانہ ترسیلات زر دو ارب ڈالر سے زائد بھجوانے کا نیا ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ سعودی عرب میں مقیم پاکستانی ترسیلات زر کی فہرست میں بدستور پہلے نمبر پر جب کہ متحدہ عرب امارات دوسرے نمبر پر ہے۔
سوموار کو ٹوئٹر پر وزیراعظم عمران خان نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’جنوری 2021 میں بیرون ملک پاکستانیوں نے دو ارب 27 کروڑ ڈالر سے زائد ترسیلات زر بھیجی ہیں۔ یہ مسلسل آٹھواں مہینہ ہے کہ ترسیلات زر دو ارب ڈالر سے زائد ہیں۔‘
وزیراعظم نے مزید کہا کہ ’آج کی تاریخ تک گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں ترسیلات زر میں یہ 24 فیصد اضافہ ہے۔ یہ ہمارے ملک کے لیے ایک ریکارڈ ہے۔ میں اس پر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا شکر گزار ہوں۔‘ 
پاکستان کے مرکزی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق ’جنوری 2021 میں ترسیلات زر 2 ارب 27 کروڑ 36 لاکھ ڈالر رہیں۔‘
رواں سال جنوری میں ترسیلات سال گزشتہ جنوری 2020 کی نسبت 19 فیصد زیادہ رہیں۔
 جنوری 2021 میں ترسیلات زر دسمبر 2020 میں دو اعشاریہ ارب ڈالرز کے مقابلے میں کچھ کم رہی ہیں۔ 
سٹیٹ بینک کے مطابق جولائی تا جنوری ترسیلات زر کا حجم 16.5 ارب ڈالر رہا جو سال گزشتہ سے 24 فیصد زائد ہے۔
حسب سابق جولائی تا جنوری ترسیلات زر کا بڑا حصہ سعودی عرب سے یعنی 4.5 ارب ڈالر رہا۔ اس عرصے میں متحدہ عرب امارات سے 3.4 ارب ڈالر کی ترسیلات زر موصول ہوئیں، برطانیہ سے دو اعشاریہ دو ارب اور امریکہ سے ایک اعشاریہ چار ارب ڈالر کی ترسیلات زر موصول ہوئیں۔
جنوری 2021 میں سعودی عرب سے پانچ کروڑ 53 لاکھ ڈالر، متحدہ عرب امارات سے چار کروڑ 92 لاکھ، دیگر خلیجی ممالک سے دو کروڑ 71 لاکھ اور یورپی یونین سے دو کروڑ 28 لاکھ لاکھ ڈالر رہے۔ 
امریکہ سے دو کروڑ جبکہ برطانیہ سے تین کروڑ ڈالر کی ترسیلات زر موصول ہوئیں۔ 
تمام ممالک سے موصول ہونے والی ترسیلات زر دسمبر 2020 کے مقابلے میں کم ہیں تاہم آٹھ ماہ سے مسلسل دو ارب ڈالر ماہانہ کا ہدف پورا کرنے میں کامیابی ملی ہے۔ 
سٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ ترسیلات زر میں متواتر اضافہ بڑی حد تک بینکاری ذرائع کے بڑھتے استعمال کا عکاس ہے۔ باضابطہ ذرائع سے رقوم کی آمد کے فروغ میں حکومت اور سٹیٹ بینک کی کوششیں شامل ہیں۔ کووڈ 19 کی دوسری لہر کے سبب محدود سفر اور شرح مبادلہ کے لچکدار نظام کا بھی عمل دخل رہا۔

شیئر: