Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دل سے دلی: کس کام کی تنخواہ؟

انڈیا کے نیشنل سروے (2019) میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ 15 سے 59 سال کے درمیان کی 92 فیصد عورتیں گھروں میں روزانہ بنا اجرت کام کرتی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا کی چار بڑی ریاستوں میں اسمبلیوں کے الیکشن ہو رہے ہیں۔ ان میں سے دو میں وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی وہ کچھ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو پہلے کبھی نہیں ہوا لیکن ہماری نگاہیں جنوبی ریاست تمل ناڈو پر ٹکی ہوئی ہیں۔
وہاں بھی کچھ ایسا ہونے والا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا لیکن اس کا ذکر ذرا دیر میں۔ پہلے باقی تین کو نمٹا دیں۔
آسام میں تو پہلے سے بی جے پی کی حکومت ہے۔ وہاں اقتدر میں قائم رہنے کے لیے وہی پرانے وعدے کیے جا رہے ہیں، ترقی کی رفتار تیز ہوگی اور بنگلہ دیش سے آ کر ریاست میں بس جانے والے لوگوں کو واپس بھیجا جائے گا۔
کہاں، یہ کسی کو نہیں معلوم۔ لیکن آسام میں شہریت کا وہ نیا قانون ہی بی جے پی کے لیے درد سر بن گیا ہے جس کے خلاف ایک سال پہلے پورے ہندوستان میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ریاست میں باہر سے آ کر بس جانے والے لوگوں میں ہندو بھی ہیں اور مسلمان بھی۔ اور مقامی لوگ ہندو مسلمان کا فرق کیے بغیر وہاں کسی کے بھی بسنے کے خلاف ہیں۔ لیکن نئے قانون کے تحت ان ہندوؤں کو بھی شہریت مل جائے گی۔

 عورتیں روزانہ تقریباً پانچ گھنٹے گھریلو کام کرتی ہیں اور( یہ 29 فیصد) مرد صرف سو منٹ۔ (فوٹو: اے ایف پی)

بڑی تعداد میں مقامی لوگوں کو یہ منظور نہیں ہے۔ سوال یہ ہےکہ ان لوگوں کی تعداد کتنی ہے اور کیا ان کی ناراضی اقتدار کا توازن بدلنے کے لیے کافی ہے؟
یہ وقت ہی بتائے گا۔ اور یہ بھی وقت ہی بتائے گا کہ بی جے پی کا پرچم کیرلہ میں لہراتا ہے یا نہیں جہاں اب تک کمیونسٹوں اور کانگریس نے ہی حکومت کی ہے۔ لیکن چانس بہت کم ہے۔ اور اب تک ممتا بنرجی کی جاگیر سمجھے جانے والے مغربی بنگال میں کیا ہوگا؟ ممتا دس سال سے مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ہیں لیکن اس مرتبہ وہاں تقریباً اسی انداز کی سیاست ہو رہی ہے جو اکثر شمالی ہندوستان میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس لیے مقابلہ سخت ہے۔
یہ تینوں ہی الیکشن اہم ہیں۔ لیکن ہماری دلچسپی تمل ناڈو کے الیکشن میں زیادہ ہے کیونکہ وہاں کوئی بھی ہارے یا جیتے، ایک سماجی انقلاب آنا طے ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میدان میں موجود تینوں سیاسی پارٹیوں نے گھریلو کام کاج کے لیے عورتوں کو ایک مخصوص رقم دینے کا اعلان کیا ہے۔
بس یوں سمجھیے کہ جو عورتیں اپنے گھروں میں بنا اجرت کام کرتی ہیں اب حکومت انہیں اس کام کے پیسے دے گی۔ اور یہ رقم پندرہ سو روپے ماہانہ تک ہو سکتی ہے۔
تمل ناڈو میں مفت میں سامان بانٹنے کی روایت پرانی ہے، چاہے رنگین ٹی وی ہوں یا مکسر گرائنڈر۔ جو بنٹتا ہے سب کو ملتا ہے۔
لیکن عورتوں کو گھریلو کام کے لیے پیسے دینے کے فائدے بھی ہیں اور نقصان بھی۔ سب سے بنیادی سوال تو یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ موجود مالی بحران کے دوران اتنی رقم کا انتظام کہاں سے ہوگا۔ یہ کلر ٹی وی تو ہے نہیں کہ ایک مرتبہ دے دیا اور چھٹی ہو گئی۔ عورتیں تو روزانہ کام کرتی ہیں اور جب تک سانس چلتی ہے، کرتی رہتی ہیں۔ اس لیے یہ ایک طرح کی تاحیات پینشن ہو جائے گی جسے کوئی سیاسی پارٹی بند نہیں کر پائے گی۔
بہار کے الیکشن کے دوران بی جے پی نے کوروناوائرس کا ٹیکا مفت لگانے کا وعدہ کیا تھا۔ اسی وقت یہ بات تقریباً طے ہوگئی تھی کہ کوئی بھی ریاستی حکومت اب ٹیکا مفت میں نہ لگانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔ اور اب وہ ہی ہو رہا ہے۔ آپ کسی بھی سرکاری ہسپتال میں جائیے اور جیب میں ہاتھ ڈالے بغیر ٹیکا لگوا کر آ جائیے۔ اور یہ سہولت ہم جیسے لوگوں کو بھی دستیاب ہے جن کے لیے دو چار سو روپے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔
لیکن بہت سے لوگوں کا اعتراض یہ ہے کہ عورتوں کو گھر کے لیے تنخواہ دینے کا آئیڈیا تو اچھا ہے لیکن وہ ہمارے ٹیکس سے کیوں دی جائے۔ مختصر جواب یہ ہے کہ حکومتیں سارے ہی کام آپ کے ٹیکس سے کرتی ہیں۔ چاہے ٹیکا لگوایا جا رہا ہو یا ٹی وی بانٹے جا رہے ہوں۔

تمل ناڈو میں مفت میں سامان بانٹنے کی روایت پرانی ہے، چاہے رنگین ٹی وی ہوں یا مکسر گرائنڈر۔ جو بنٹتا ہے سب کو ملتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

لیکن مثبت پہلو یہ ہے کہ پہلی مرتبہ گھروں میں عورتوں کے کام کی اہمیت کو تسلیم کیا جا رہا ہے۔ ورنہ وہ کسی گنتی میں نہیں آتا۔ آزمانے کے لیے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہی ہے، بس اپنے گھر میں ہی دیکھ لیجیے۔ سوال آپ کو خود سے ہی کرنا ہے۔ کیا آپ واقعی صبح سے شام تک گھر میں کیے جانے والے کام کو اتنا ’ویلیو‘ کرتے ہیں اور اسے اتنا اہم مانتے ہیں جتنا اپنے کام کو سمجھتے ہیں؟ اور اگر آپ کی بیوی یا بیٹی باہر کام کرتی ہے تو گھر لوٹنے کے بعد کچن کا رخ کرتی ہے یا ٹی وی کے سامنے بیٹھتی ہے۔
جواب آپ کو معلوم ہی ہے۔ لیکن آپ اکیلے نہیں ہیں۔ انڈیا کے نیشنل سامپل سروے (2019) میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ 15 سے 59 سال کے درمیان کی 92 فیصد عورتیں گھروں میں روزانہ بنا اجرت کام کرتی ہیں۔ مردوں کے لیے یہ تعداد 29 فیصد تھی۔ معلوم نہیں کہ یہ بے چارے کون ہیں اور کس دنیا میں بستے ہیں لیکن ان کی شرافت اور اپنے گھروں کی عورتوں سے ان کی محبت کو سلام۔
اسی سروے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عورتیں روزانہ تقریباً پانچ گھنٹے گھریلو کام کرتی ہیں اور (یہ 29 فیصد) مرد صرف سو منٹ۔
لیکن عورتوں کو تنخواہ دینے کا کام آسان نہیں ہوگا۔ مالی بوجھ کے علاوہ کئی دوسرے اہم سوال بھی ہیں۔ کیا اس فیصلے سے یہ پیغام نہیں جائے گا کہ گھر کا کام صرف عورتوں کی ہی ذمہ داری ہے؟ اور کیا یہ رقم ان عورتوں کو بھی دی جانی چاہیے جو گھر سے باہر بھی کام کرتی ہیں۔ اور اگر نہیں تو کیا وہ جو گھر میں کام کرتی ہیں اس کی کوئی گنتی نہیں؟ جو جتنی زیادہ محنت کرے گا وہ اتنا ہی کم کمائے گا؟
سوال بہت ہیں اور ان کا کوئی آسان جواب نہیں ہے۔ لیکن اس اعلان سے اتنا تو ضرور ہوا ہے کہ لوگ اس بارے میں بات کر رہے ہیں۔
معاشرے میں تبدیلی کی شروعات اسی طرح ہوتی ہے۔

شیئر: