Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

الیکشن کمیشن سے استعفے کامطالبہ ہوسکتا ہے ہٹایا نہیں جاسکتا:ماہرین

کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 204 کے تحت الیکشن کمیشن کو مکمل تحفظ حاصل ہے۔(فوٹو: اے ایف پی)
سینیٹ الیکشن اور  پنجاب کے ضلع ڈسکہ میں ہونے والے ضمنی الیکشن کے تنازعات کے بعد وفاقی حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن سے استعفے ہونے کے مطالبے پر قانونی اور آئینی ماہرین نے بھی حیرت کا اظہار کیا ہے کیونکہ ماضی میں ایسی نظیر نہیں ملتی کہ کسی حکومت نے اس آئینی ادارے پر اس طرح سے عدم اعتماد کیا ہو۔
ماہرین کے مطابق حکومتی مطالبے کی کوئی قانونی حثییت نہیں کیونکہ بطور آئینی ادارہ کمیشن کو مکمل تحفظ حاصل ہے۔
اسلام آباد میں تین وفاقی وزرا کی ایک پریس کانفرنس کے دوران وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن غیر جانبدار نہیں رہا اس لیے ناصرف چیف الیکشن کمشنر بلکہ الیکشن کمیشن کو بحیثیت مجموعی استعفیٰ دینا چاہیے۔
اس حوالے سے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ انہیں اس مطالبے پر افسوس ہے یہ ایک نئی روایت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کا الیکشن کمیشن جیسے آئینی ادارے کے کام میں مداخلت کرنا مناسب نہیں اور ماضی میں کسی حکومت نے الیکشن کمیشن پر اس طرح عدم اعتماد نہیں کیا۔ ’اس اقدام سے ملک میں آئینی اور قانونی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔‘
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجیسلیٹو ڈیویلپمنٹ (پلڈاٹ ) کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے الیکشن کمیشن کے پانچوں ارکان سے استعفے کا مطالبہ انتہائی افسوسناک اور غیر ذمہ دارانہ ہے۔
ٹویٹر پر اپنے ردعمل میں ان کا کہنا تھا کہ اس مطالبےکا سب سے زیادہ نقصان شاید حکومت کو ہی پہنچے گا۔ اسی حکومت نے تقریباً ایک سال قبل موجودہ چیف الیکشن کمشنر راجہ سکندر سلطان کو اتفاق رائے سے تعینات کیا تھا۔

الیکشن کمیشن کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔

کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 204 کے تحت الیکشن کمیشن کو مکمل تحفظ حاصل ہے اور حکومت صرف ممبران کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر سکتی ہے۔
تاہم وفاقی وزیر شفقت محمود پریس کانفرنس میں کہہ چکے ہیں کہ حکومت کا ریفرنس دائر کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

 شفقت محمود پریس کا کہنا ہے کہ حکومت کا ریفرنس دائر کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ (فوٹو: سکرین گریب)

سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کے مطابق حکومت کمزور وکٹ پر محسوس ہو رہی ہے کیونکہ اس وقت الیکشن کمیشن میں حکمران جماعت پی ٹی آئی کے خلاف فارن فنڈنگ کیس زیر سماعت ہے جب کہ ڈسکہ میں متنازعہ ضمنی الیکشن کے بعد دس اپریل کو ایک بار پھر وہاں ضمنی انتخاب کا انعقاد ہونا ہے۔
ممتاز ماہر قانون اور سپیرم کورٹ کے وکیل حامد خان کا کہنا ہے کہ حکومت کا الیکشن کمیشن سے استعفے کا مطالبہ بالکل غلط ہے انہیں اگر کوئی اعتراض ہے تو پہلے انکوائری کریں پھر ثبوت لائیں اور پھر ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ریفرنس دائر کر دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین اور ممبران الیکشن کمیشن کو حکومت ان کی مدت مکمل ہونے سے قبل نہیں ہٹا سکتی اور اس کے مطالبے کی کوئی حثییت نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں الیکشن کمیشن پر اپوزیشن کی طرف سے تنقید کی مثالیں موجود ہیں مگر یہ غیر معمولی ہے کہ اس بار حکومت کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے آیا ہے۔

شیئر: