Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سندھ میں ہر ماہ کتے کے کاٹنے کے ’16 ہزار سے زائد واقعات‘

گزشتہ سال صوبہ سندھ میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد کتے کے کاٹنے کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ (فوٹو اے ایف پی)
سندھ ہائی کورٹ کے سکھر بیچ نے سگ گزیدگی کے بڑھتے واقعات اور اینٹی ریبیز ویکسین کی عدم فراہمی کے حوالے سے کیس کی سماعت کرتے ہوئے جامشورو سے منتخب ممبر صوبائی اسمبلی ملک اسد سکندر کی اسمبلی رکنیت معطل کرنے کا حکم صادر کر دیا ہے۔
لاڑکانہ سے متصل علاقوں میں بھی سگ گزیدگی کے واقعات کی روک تھام نہ ہونے کی پاداش میں عدالت نے جمعرات کو رتوڈیرو سے منتخب رکن صوبائی اسمبلی، سابق صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ اور پیپلز پارٹی وومین ونگ کی سربراہ فریال تالپور کی اسمبلی رکنیت معطل کرنے کے بھی احکامات جاری کیے۔
یاد رہے کہ رواں سال 26 فروری کو جامشورو میں دو سالہ بچی ایمان کتے کے کاٹنے سے ہلاک ہوئی تو اگلے دن سندھ اسمبلی کے اجلاس میں تحریک انصاف کے رہنما خرم شیر زمان نے واقعے کو بنیاد بنا کر پیپلز پارٹی پر تنقید کی اور کہا ’ایسا لگتا ہے کہ سندھ میں کتوں کا راج ہے۔‘
یہ بیان سن کر پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی مشتعل ہو گئے اور پی ٹی آئی اراکین سے ہاتھا پائی کے لیے لپکے، سخت جملوں کا تبادلہ ہوا اور بمشکل بیچ بچاؤ کروایا گیا۔
گزشتہ چند سالوں میں سندھ بھر میں، بشمول کراچی، آوارہ کتوں کے کاٹنے کے واقعات بہت عام ہوگئے ہیں، ساتھ ہی اینٹی ریبیز ویکسین کی بھی قلت کا سامنا ہے جس کے باعث علاج ممکن نہیں۔
سندھ حکومت کے محکمہ صحت کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق سال 2020 کے پہلے نو مہینوں میں صوبے بھر کے ہسپتالوں میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد کتے کے کاٹنے کے واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔
سگ گزیدگی کے سب سے زیادہ واقعات کراچی میں 17 ہزار آٹھ سو، نوشہرو فیروز 13 ہزار، خیرپور 12 ہزار پانچ سو، کشمور 11 ہزار چار سو، دادو میں 11 ہزار تین سو، قمبر شہداد کوٹ نو ہزار ایک سو، سانگھڑ آٹھ ہزار، جبکہ عمر کوٹ میں 7 ہزار پانچ سو کیسز رپورٹ ہوئے۔
محکمہ صحت کے مطابق سال 2019 میں صوبے بھر میں تقریباً دو لاکھ کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔
رپورٹ کے مطابق ’سندھ میں ہر مہینے کتے کے کاٹنے کے 16 سے 17 ہزار کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، اور ان میں سے بیشتر کو اینٹی ریبیز ویکسین نہیں ملتی۔‘
اپریل 2020 میں لاڑکانہ کے نو سالہ بچے ذیشان کو آوارہ کتے نے کاٹا تھا جو بروقت ویکسین نہ ملنے پر ریبیز کا شکار ہوگیا تھا۔ 20 دن کی تاخیر کے بعد بچے کو کراچی لایا گیا جہاں وہ جانبر نہ ہوسکا۔
اس سے پہلے شکار پور کے 10 سالہ میر حسن کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا جسے ستمبر 2019 میں کتے نے کاٹا تھا تاہم پورے ضلع میں اینٹی ریبیز ویکسین دستیاب نہیں تھی، بعد میں اسے تشویش ناک حالت میں لاڑکانہ منتقل کیا گیا تو وہاں بھی ویکسین فراہم نہ کی گئی۔
بچے کے والدین اسے کمشنر آفس لاڑکانہ کے احاطے میں لیے بیٹھے رہے جہاں اینٹی ریبیز ویکسینیشن سینٹر قائم تھا، تاہم علاج نہ ہو سکا اور بچے کا کمشنر آفس کے احاطے میں ہی انتقال ہو گیا۔
سال 2020 میں کتے کے کاٹنے سے ہونے والی اموات کی تعداد 17 رپورٹ ہوئی تھی۔
سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ کئی مہینوں سے اس حوالے سے کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ جسٹس آفتاب احمد اور جسٹس محمود خان پر مشتمل دو رکنی بینچ نے اس سے قبل کہا تھا کہ سندھ میں روزانہ کی بنیاد پر آوارہ کتوں کے کاٹنے کے واقعات ہو رہے ہیں تاہم حکومت روک تھام کے لیے کوئی اقدام نہیں لے رہی۔
عدالت نے شروع میں علاقے کے میونسپل افسر کو اس بات کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا کہ وہ اپنے زیر انتظام علاقے میں سے گزیدگی کے واقعات روکنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔

پاکستان میں کئی ادارے کتوں کے تحفظ کے لیے بھی کام کرتے ہیں (فوٹو اے ایف پی)

ان احکامات کی حکم عدولی پر برہم ہوتے ہوئے کیس کی گزشتہ سماعت میں عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ اب اگر غفلت برتی گئی اور کسی علاقے میں کتے کے کاٹنے کا واقعہ ہوا تو وہاں کے  ایم پی اے کو معطل کیا جائے گا۔
اس حوالے سے عدالت نے سندھ اسمبلی سیکریٹریٹ کو بھی انتباہ دیا تھا اور جواب مانگا تھا کہ متعلقہ ممبران اپنے حلقے میں سگ گزیدگی روکنے کے اقدامات کی سرپرستی کیوں نہیں کرتے۔
سندھ اسمبلی سیکریٹریٹ نے اس حوالے سے کوئی جواب جمع نہیں کروایا جس کے بعد عدالت نے مذکورہ ممبران کو معطل کرنے کا حکم صادر کرتے ہوئے دیگر سے جواب طلب کیا ہے۔

شیئر: