Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

50 گرام باجرے سے ماہانہ 25 ہزار منافع کمانے والے بابا فرید

بھاری جسم، بزرگانہ سفید داڑھی، چال میں لنگڑاہٹ اور ہاتھ میں لاٹھی۔ یہ بابا غلام فرید ہیں جو تقریباً ستائیس سال پہلے پاک پتن سے اسلام آباد کے ایک سٹرابری فارم پر کام کرنے کے لیے آئے۔
بابا فرید سٹرابری کی کاشت کے ایک ماہر کسان ہیں لیکن کسی کی زمین پر ایک مزدور کی حیثیت سے کام کر کے گزر اوقات کرنا کافی مشکل کام تھا۔ بابا فرید وقت کو دھکا دیتے رہے اور اپنے ساتھ چھ بچوں کو لگا کر ان کو بھی کام سکھایا اور پالا پوسا۔
سٹرابری کی کاشت کے ساتھ انہیں بچپن سے ہی مرغیوں کے ساتھ لگاؤ تھا۔ اس شوق کو پورا کرنے کے لیے وہ گھر میں ہر وقت کچھ مرغیاں پال کر رکھا کرتے تھے جس سے نہ صرف ان کا شوق پورا ہوتا تھا بلکہ اِکا دُکا انڈے بیچنے سے روزمرہ کے چائے پانی کا خرچہ نکل آتا تھا۔

 

وہ اپنی زندگی میں روانی سے عمر کی آخری منزل کی جانب بڑھ رہے تھے کہ دو سال پہلے وزیراعظم عمران خان نے ایک تقریب میں لوگوں میں مرغیاں اور انڈے تقسیم کرکے غربت ختم کرنے کے ایک منصوبے کا اعلان کیا۔
ان کا یہ اعلان بہت سے لوگوں کے لیے مذاق بن گیا اور انہوں نے وزیراعظم پر خوب تنقید کی کہ وہ مرغیاں پال کر کیسے غربت کا خاتمہ کر سکتے ہیں؟
تاہم یہ بات بابا فرید کے لیے مشعلِ راہ بن گئی۔ انہوں نے گھر میں موجود مرغیوں کی تعداد بڑھانے کا فیصلہ کیا اور وزیراعظم کے پروگرام کے تحت پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل سے جا کر مزید مرغیاں لے آئے۔ کچھ چوزے انہوں نے گلی گلی مرغیاں بیچنے والے پھیری والوں سے لیے اور کچھ ایک قریبی فارم سے۔
اپنی بساط کے مطابق انہوں نے نچلے درجے سے یہ کام شروع کیا اور اب ساٹھ مرغیوں کے ساتھ محدود سطح پر اچھا کاروبار کر رہے ہیں۔
بابا فرید کا کہنا ہے کہ ’رواں سال سردیوں میں انہوں نے صرف انڈوں کے ذریعے ماہانہ پچیس ہزار روپے تک بھی کمائے ہیں اور یہ کاروبار ان غریبوں کے لیے بہت مفید ہے جو کچھ اور نہیں کر سکتے، ان کے پاس روزگار ہے نہ اپنا کاروبار شروع کرنے کے لیے سرمایہ۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’یہ غریب کے لیے ایسے ہے کہ جیسے سونے کی کان ہو۔‘
’میں اس وقت سے مرغیاں پال رہا ہوں، جب ایک مرغی سوا روپے کی ملتی تھی۔ میں نے مرغیوں کی تعداد کم کرنے کے بجائے بڑھائی ہے۔‘

بابا فرید نے اپنا کام 50 چوزوں سے شروع کیا تھا اور اب وہ ہر ہفتے ہزاروں روپے کما رہے ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

بابا فرید کہتے ہیں کہ ’مرغیوں کے کاروبار میں اخراجات انتہائی کم ہیں کیونکہ گھر میں پالی گئی ایک مرغی دن میں صرف 50 گرام باجرہ کھاتی ہے۔‘
’ان کے رکھنے کے لیے زیادہ بڑی جگہ بھی درکار نہیں ہوتی۔ میں نے چھوٹی سی جگہ پر تین تہیں بنا کر مرغیاں رکھی ہیں۔ ایک تہہ پر 12 مرغیاں سمٹ جاتی ہیں۔‘
اسلام آباد کے غوری ٹاؤن میں رہنے والے نوجوان مدثر جاوید بھی مرغیوں سے منافع کما رہے ہیں۔
انہوں نے اپنا کام 50 چوزوں سے شروع کیا تھا۔ اور اب وہ اس سے ہر ہفتے ہزاروں روپے کما رہے ہیں۔
’میں نے اس کاروبار میں پانچ ہزار روپے کی ابتدائی سرمایہ کاری کی تھی۔ اب میں ہر ہفتے پانچ ہزار کے انڈے بیچتا ہوں۔‘
مدثر کہتے ہیں کہ ’اس کام میں کوئی زیادہ محنت بھی نہیں ہے اور وہ ایک نجی کمپنی میں ملازمت کے باوجود خود ہی اس کی ساری دیکھ بھال کر رہے ہیں۔‘
’میں صبح دفتر جانے سے پہلے ان کو دانا ڈال جاتا ہوں اور پھر شام کو واپس آ کر ڈالتا ہوں۔ میں اس پارٹ ٹائم کام کے ذریعے گھر کا خرچ چلا رہا ہوں۔‘

حکام کے مطابق ’شروع میں بیماری پھیلنے سے اس پروگرام کو مشکلات کا سامنا تھا لیکن اب اس پر قابو پا لیا گیا ہے‘ (فوٹو: اردو نیوز)

 ’سب کو یہ کام کرنا چاہیے۔ اس میں بہت منافع ہے۔‘
مرغیوں کی تقسیم کے سرکاری پروگرام کی سربراہ ڈاکٹر تابندہ خواجہ کے مطابق ’اب تک ملک بھر میں ایک لاکھ 72 ہزار خاندان اس پروگرام سے مستفید ہو چکے ہیں۔‘
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر تابندہ خواجہ نے بتایا کہ ’حکومت اب تک صوبہ پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخوا، کشمیر، گلگت بلتستان اور اسلام آ باد میں 11 لاکھ 73 ہزار مرغیاں 30 فیصد رعایتی نرخوں پر فراہم کر چکی ہے اور ان کی کامیابی کی شرح 84 فیصد ہے۔‘
’ہم چھ مرغیوں کا ایک سیٹ جس میں پانچ مرغیاں اور ایک مرغا ہوتا ہے فی خاندان فراہم کرتے ہیں اور ہمیں اس سکیم کا بہت اچھا فیڈ بیک ملا ہے۔‘
تاہم ڈاکٹر تابندہ نے بتایا کہ ’صوبہ سندھ اس پروجیکٹ میں شامل نہیں ہے کیونکہ وہاں کی حکومت نے اس قومی پروگرام سے اختلاف کیا تھا اور وہاں پر وفاقی حکومت یہ سکیم نہیں چلا رہی۔‘
اسلام آباد میں اس پروگرام کی نگرانی کرنے والے زرعی تحقیقاتی کونسل کے سینیئر رکن ڈاکٹر شہباز جاوید نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’صرف وفاقی دارالحکومت میں اب تک 200 خاندانوں میں ڈھائی ہزار کے قریب مرغیاں تقسیم کی جا چکی ہیں۔‘
’ہم لوگوں میں مقامی، امریکی، آسٹریلوی اور مصری نسل کی مرغیاں تقسیم کر رہے ہیں اور اب تک یہ تمام نسلیں بہت کامیاب ہو رہی ہیں۔‘
ڈاکٹر شہباز جاوید کے مطابق ’شروع میں بیماری پھیلنے کی وجہ سے اس پروگرام کو مشکلات کا سامنا تھا لیکن اب بیماری پر قابو پا لیا گیا ہے اور اب اس سکیم سے مستفید ہونے والے لوگ بہت اچھی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔‘

شیئر: